ورلڈ کپ کہانی، کس کی اگلی باری

May 21, 2019

کرکٹ کا 12 واں عالمی کپ 30 مئی سے انگلینڈ اینڈ ویلز میں شروع ہو رہا ہے، جس میں 10 ٹیمیں میزبان انگلینڈ، پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، جنوبی افریقا، ویسٹ انڈیز اور افغانستان کی ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ میگا ایونٹ کے ایک روزہ مقابلوں میں 48 میچ کھیلے جائیں گے۔ انگلینڈ کے 10 شہروں کے 11 مقامات ان کی میزبانی کریں گے۔ انگلش سرزمین دیکھی جائے تو یہ ویسٹ انڈیز کے لئے 2 اور بھارت و آسٹریلیا کے لئے ایک ایک مرتبہ خوش بختی کی علامت بنی ہے جب مذکورہ ٹیمیں ورلڈ چیمپئن بنیں ۔ کرکٹ کا یہ 12 واں عالمی کپ کون جیتے گا؟ ورلڈ کپ کی اس کہانی میں کس کی اگلی باری ہو گی؟ کھیلنے والی ہر ٹیم اسی یقین کے ساتھ میدان میں اترے گی کہ آ گئی اپنی باری۔ورلڈ کپ کی روایات بھی مثالی ہیں،سری لنکا پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ تاریخ کے تمام 7میچوں میں ناکام اور پاکستان بھارت کےخلاف 6میچوں سے فتح کا متلاشی ہے تو ایک ٹیم جنوبی افریقا تمام ایشیائی ممالک پاکستان،بھارت ،سری لنکا اور بنگلہ دیش سے صرف ایک ایک میچ ہاری ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو چھوڑ کر باقی 3بڑے ایشین ممالک کو شکستیں بھی 3،3 یکساں ملی ہیں۔ عالمی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم انگلینڈ گذشتہ 4 سال سے بلا تعطل ایک روزہ فارمیٹ کی کامیاب ترین ٹیم رہی ہے وہ اس ورلڈ کپ کا میزبان بھی ہے۔ گویا کارکردگی میں بھر پور ردھم ، ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کا ایڈوانٹیج سونے پہ سہاگا ہو گا۔ اوئن مورگن کی قیادت میں کھیلنے والی ٹیم کو بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہوں گی۔ 11 ورلڈ کپ کھیلنے والا انگلینڈ 5 ویں مرتبہ میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اور بڑا اعزاز ہے۔ میزبانی کے اضافی ایڈوانٹیج اور 3 ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کے باوجود وہ تاحال چیمپئن بننے سے محروم ہے۔ آخری مرتبہ اس نے 1992 کے ورلڈ کپ فائنل میں کوالیفائی کیا تھاورلڈ کپ تاریخ میں 72 میچوں کے ساتھ اس کا نمبر 5 واں ہے،آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں انگلینڈ کے قریب ترین ٹیم بھارت کی ہے ۔ جس نے گذشتہ چار سال میں شاندار پرفارمنس دی ہے۔ ویرات کوہلی الیون بلاشبہ میچ ونر پلیئرز کا بھرپور کوٹہ رکھتی ہے۔ اس نے ایک روزہ کرکٹ کے اولین دور میں 1983 کا ورلڈکپ بھی جیتا اور 8 سال قبل موجودہ کرکٹ میں بھی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ آسٹریلیا کے بعد اسے ویسٹ انڈیز کے ہمراہ مشترکہ طور پر 2 مرتبہ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے جو کسی اور ملک کے پاس نہیں ہے۔بھارت اتفاق سے اگلے ورلڈ کپ 2023 کا میزبان بھی ہے۔ بھارت کو تو انگلینڈ سے ایک مرتبہ زائد 6 مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس نے 3 سیمی فائنل جیتے ہیں۔ پھر گویا 3 فائنل کھیلے اور ان میں 2 مرتبہ جیتا جبکہ ایک مرتبہ 2003 میں وہ ہارا ہے۔ بھارتی ٹیم کو ورلڈ کپ تاریخ میں 75 میچ کھیلنے کا موقع ملا جو تعداد کے اعتبار سے تیسری بڑی شرکت ہے، 50 اوورز فارمیٹ کے آل ٹائم موجودہ پلیئرز کے ٹاپ 10 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے تو ویرات کوہلی، روہت شرما اور ایم ایس دھونی صف اول میں شامل ہوں گے۔ آئی سی سی درجہ بندی میں ٹاپ فور میں شامل جنوبی افریقا ٹیم بھی گذشتہ 4 سال میں تسلسل کے ساتھ بہترین کارکردگی پیش کرتی آئی ہے، تاریخ کا پہلا ورلڈ کپ اس نے 1992 میں کھیلا تھا، 7 ورلڈ کپ میں اس نے 4 مرتبہ سیمی فائنل کھیلا۔ اور چاروں مرتبہ ہارا، مجموعی طور پر ورلڈ کپ کے 55 میچ کھیلے ہیں۔نیوزی لینڈ کرکٹ کی تاریخ بھی پرانی اور قسمت کی خرابی ساتھ ساتھ ہے۔ تمام 11 ورلڈ کپ کھیلنے والی اس ٹیم نے آسٹریلیا کے بعد میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ 79میچ کھیلا ہے، نیوزی لینڈ کو ورلڈ کپ تاریخ میں آسٹریلیا کے ساتھ مشترکہ طور پر سب سے زیادہ 7 سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہےسیمی فائنل کی تاریخ کی ناکام ترین ٹیم بھی صرف نیوزی لینڈ ہی ہے جب اسے 6 مرتبہ شکست ہوئی،1992 کا عالمی چیمپئن پاکستان موجودہ ورلڈ کپ کے لئے کسی بھی ٹیم یا مبصر کے نزدیک کتنا بڑا خطرہ ہے؟ ماضی قریب میں 2017 کی چیمپئنز ٹرافی اسی ملک میں پاکستان نے نان فیورٹ ہوتے ہوئے جیتی تھی۔ ، سرفراز الیون بھی ان سات ممالک میں شامل ہے جسے تمام 11 ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزازحاصل ہے۔ پھر پاکستان ان 5 ممالک میں سے ایک ہے جس نے ورلڈ چیمپئن کی جنگ جیت رکھی ہے۔ ورلڈ کپ تاریخ میں 2 مرتبہ کا فائنلسٹ ہے گویا فائنل کھیلنے والوں میں اس کا تعداد کے حساب سے تیسرا نمبر ہے۔ آسٹریلیا 7 کے ساتھ پہلے ، انگلینڈ ، بھارت، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز 3,3 فائنل کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ 6 سیمی فائنل کے ساتھ پاکستان بھارت کے ساتھ زیادہ سیمی فائنل کھیلنے والا مشترکہ طور پر دوسرا ملک ہے۔ پاکستان نے ورلڈ کپ تاریخ میں 71 میچ کھیل رکھے ہیں۔ یہ زیادہ میچز کھیلنے والوں میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ مشترکہ طور پر چھٹا نمبر ہے۔ فتوحات میں 40 نمبرز کے ساتھ اس کا پانچواں نمبر ہے۔ ناکامیوں میں 29 کا ہندسہ اس کا 2 ممالک ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے ساتھ یکساں ہے،۔ 2015 میں اس کا سفر کوارٹر فائنل میں تمام ہوا۔ 2011 میں سیمی فائنل تک رہا جبکہ 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ میں پہلے ہی مرحلے میں گھر واپس آنا پڑا۔ گرین کیپس نے گذرے چار سال کا زمانہ ملا جلا گذارا ہے۔ 2017 میں اسے مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے آئی سی سی کی ٹاپ 8 ٹیموں سے باہر ہونے کا خطرہ تھا۔ ورلڈ کپ میں براہِ راست داخلہ مشکل ہوگیا تھا ، اس ٹیم سے ورلڈ کپ میں اچھی کار کردگی کی امید ہے،دفاعی چیمپئن ٹیم آسٹریلیا کا ذکر چھٹے نمبر پر اس لئے کیا ہے کہ یہ ٹیم ون ڈے رینکنگ میں اسی نمبر پر چل رہی تھی،آسٹریلیا کو ورلڈ کپ تاریخ میں سب سے زیادہ 5 مرتبہ چیمپئن بننے، سب سے زیادہ 84 میچ کھیلنے اور سب سے زیادہ 62 فتوحات حاصل کرنے کا منفرد ریکارڈ حاصل ہے۔ ٹیم کو ایک اور منفرد اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ سیمی فائنل نہیں ہاری۔ آسٹریلیا بلاشبہ اس مرتبہ فیورٹ نہیں ہے۔ سیمی فائنل کھیل جانا بھی بڑا کارنامہ ہو گا۔ یہ ٹیم ہارنے پر آئے تو افغانستان سے بھی ہار سکتی ہے۔ سری لنکا کی ون ڈے کارکردگی خراب سے خراب تر، جیتنے پر آئے تو جنوبی افریقا میں ٹیسٹ سیریز جیتنے والی پہلی ایشین ٹیم کا اعزاز 2019 میں ہی حاصل کرلیا،۔ تمام 11 ورلڈ کپ کھیلنے والا یہ ملک چھٹے ورلڈ کپ 1996 میں پہلی مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچا تو یہ بڑا اعزاز تھا، پھر فائنل میں پہنچ جانا اس سے بڑا اور پھر چیمپئن بن جانا تو کمال ہی تھا۔ 2003 سے 2011 تک 3 سیمی فائنل سمیت 2 فائنل کھیلے اور رنر اپ کا ٹائٹل لیا، 73 ورلڈ کپ میچوں کے ساتھ وہ زیادہ میچ کھیلنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ ٹیم اس بار بھی سخت حریف ثابت نہیں ہو گی۔ اس کا فائنل فور میں کوالیفائی کرنا مشکل ہے،1999سے ورلڈ کپ میں قدم رکھنے والی بنگلہ دیشی ٹیم نے بھی میگا ایونٹس میں متعدد مرتبہ چونکا دینے والی کارکردگی پیش کی ہے۔ بڑے اپ سیٹ کرنے کے باوجود اسے وہ اعزاز حاصل نہ ہوا جو ایسوسی ایٹ ٹیم کینیا نے 2003 میں ورلڈ کپ سیمی فائنل کھیل کر اپنے نام کیا تھا۔ اپنے اولین ایونٹ میں اس نے پاکستان کے خلاف ناقابل یقین کامیابی حاصل کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی تھی، اتفاق سے یہ ایونٹ 1999 میں انگلینڈ میں ہی تھا۔ 5ورلڈ کپ کے 32میچز میں اس نے 11جیتے اور 20 ہارے ہیں۔ سیمی فائنل اور فائنل سے ہمیشہ دور ہے ۔ انگلش سرزمین پر بنگلہ دیش کا ورلڈ کپ 2019 میں سیمی فائنل میں جانا ناقابل یقین واقعہ ہو گا جس کے امکانات بہرحال کم ہیں۔2 مرتبہ کی عالمی چیمپئن، 3 مرتبہ کی فائنلسٹ ٹیم کرس گیل جیسے عالی شہرت یافتہ اوپنر کی پہچان رکھنے والی ویسٹ انڈیز آئی سی سی ون ڈے درجہ بندی میں نویں پوزیشن پرہے۔ ماہرین کی نگاہ میں یہ ٹیم اس ورلڈ کپ کی حقیقی ڈاک ہارس ہوگی۔ اس کا مان لینا اتنا آسان بھی نہیں ہے ،وجہ یہ ہے کہ گذرے 4 سالوں میں اس نے 62 میچوں میں سے صرف 17 فتوحات اپنے نام کیں اور 39 شکستیں مقدر بنیں۔ افغانستان کرکٹ ٹیم کی خوش قسمتی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ ایک میگا ایونٹ کھیل کر اسے ٹیسٹ اسٹیٹس مل گیا، اس کے کھلاڑی محدود اوورز کی کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ 10 میں چلے آ رہے ہیں۔9 ورلڈ کپ میں 57 میچ کھیلنے والی زمبابوین ٹیم افغانستان کی وجہ سے میگا ایونٹ سے باہر ہو گئی۔