ہمارے وزیراعظم کی اُمید بر آئی

May 31, 2019

جناب عمران خان اُس کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے جس نے پاکستان کے لئے 1992میں ورلڈکپ جیتا تھا۔ تب سے وہ خود کو کپتان کہلوانے میں بہت خوشی اور بڑا اِعزاز محسوس کرتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں روحانیت کا بھی ایک بلند مقام عطا کر دیا ہے اور اُن کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں جب نریندر مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران ہندو آبادی کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف زہریلی تقریریں کر رہے تھے، تو ہمارے وزیرِاعظم نے غیرمعمولی سیاسی فراست سے کام لیتے ہوئے اُن کے کامیاب ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات بھی کر سکتے ہیں اور کشمیر سمیت دیرینہ تنازعات کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔ مودی صاحب بہت بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں جس پر وزیرِاعظم پاکستان نے اُنہیں مبارک باد پیش کی۔ جواب میں خیرسگالی کا پیغام آیا اور یہ وعدہ بھی کہ خطے کے امن اور خوشحالی کے لئے مل جل کر کام کریں گے مگر اِس امر پر حیرت ہوئی کہ اُنہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں جو 30مئی کو منعقد ہوئی، عمران خان صاحب کو شرکت کی دعوت نہیں دی۔

ہم اپنے وزیرِاعظم کو اُن کی اُمید بر آنے پر مبارک باد دیتے ہیں اور اِس حقیقت کا جائزہ لینے سے پہلے کہ مستقبل قریب میں اِس اُمید بر آنے پر اِس خِطے پر کس نوع کے اثرات مرتب ہوں گے، ہم بھارت کے انتخابی انتظامات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ عقل کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے، وہ جہاں بھی دستیاب ہو، اسے حاصل کیا جائے۔ بھارت میں پہلے انتخابات 1951میں ہوئے تھے۔ اِس کے بعد ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے عام انتخابات ہوتے آئے ہیں جن کے نتائج خوش دِلی سے تسلیم کیے جاتے رہے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ مئی 2019کے انتخابات بلاشبہ دنیا کے سب سے بڑے انتخابات کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں ستر کروڑ ووٹروں نے حصہ لیا۔ یہ تعداد براعظم یورپ اور براعظم آسٹریلیا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ انتخابات 11؍اپریل سے 19مئی تک سات مراحل میں ہوئے اور نتائج کا اعلان 23مئی کو کیا گیا جن کے مطابق بی جے پی نے 303جبکہ 133سال پرانی جماعت نیشنل کانگرس نے صرف 54نشستیں حاصل کیں اور اِس کے صدر راہول گاندھی امیٹھی والی اپنی خاندانی نشست ہار گئے۔ اُنہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اعلان کیا کہ عوام ہمارے حاکم ہیں، اِس لئے ہم اُن کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ بھارت میں انتخابات برسرِ اقتدار حکومت ہی کراتی ہے جس کے ایگزیکٹو اختیارات الیکشن کا شیڈول آتے ہی معطل ہو جاتے ہیں اور تین رکنی الیکشن کمیشن حکومت پر کڑی نگاہ رکھتا ہے اور انتخابات کے جملہ انتظامات حسن و خوبی سے سرانجام دیتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کا قیام 25جنوری 1951کو عمل میں آیا تھا جو تجربہ کار بیوروکریٹس پر مشتمل تھا۔ آج تک اِس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اِس کے اختیارات پاکستان کے الیکشن کمیشن سے کسی طور زیادہ نہیں۔ وہاں انتخابی عمل پر قوم کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1951کے پہلے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 45%تھا جو اب 75%سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ خواتین کا ٹرن آؤٹ مردوں سے بھی زیادہ رہا۔ پورے ملک میں الیکٹرونک مشینیں استعمال ہوئی ہیں اور کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا۔

اِس کے برعکس پاکستان میں مئی 2018کے انتخابی نتائج کے منفی اثرات ہماری سیاست کو عدم استحکام سے دوچار کیے دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کی تشکیل کا جو دستوری نظام نافذ ہے، اس کا یہ شاخسانہ سامنے آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کئی ماہ سے نامکمل چلا آ رہا ہے کیونکہ اِس کے دو معزز ارکان ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اُن کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب اِس لئے عمل میں نہ آسکا کہ ناموں پر حکومت اور اپوزیشن کا متفق ہونا ضروری ہے اور یہ اتفاقِ رائے مفقود نظر آتا ہے۔

کل نریندر مودی وزیرِاعظم کا حلف اُٹھا چکے ہیں اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ بھارت کو تقسیم کریں گے یا تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھیں گے۔ سیاست میں اِس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ مودی بہت زیادہ بااختیار بن جانے کے بعد ان آلائشوں اور نفرتوں سے اپنا دامن چھڑا سکیں گے جن کو انتخابی مہم کے دوران عام کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی پہلی تقریر میں عندیہ بھی دیا ہے کہ بھارت سب کے لئے ہے، مگر اُن کی سیاسی جماعت بی جے پی، انتہاپسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے، جو گزشتہ اَسّی پچاسی برسوں سے ہندوستان کو مہا بھارت بنانے اور اِس میں رام راج قائم کرنے کے لئے کوشاں چلی آ رہی ہے۔ اس وقت اسے مودی کی شکل میں ایک سورما اور مسیحا میسر آ گیا ہے اور یہ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ سیکولرازم کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دینے سے بھارت ایک ہندو ریاست بن جائے گا اور ہمسایوں کے لئے ایک عذاب ثابت ہو گا۔

اداکارہ سمرتی ایرانی نے راہول گاندھی کو 55ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے جس کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ وہ گاندھی جی کے قاتل کو جس کا تعلق آر ایس ایس سے تھا، اپنا ہیرو قرار دیتی ہے۔ آر ایس ایس جس کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں ہیں، وہ مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کو خوف میں مبتلا رکھ کر ہندو توا فاشزم قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ آر ایس ایس کے غنڈے سرکاری مشینری پر قابض ہو چکے ہیں اور اہم اداروں میں ہندو بنیاد پرست دانشور بھر دیے گئے ہیں۔ مودی سرکار نے بڑی ہوشیاری سے فوج اور طاقتور طبقوں کو مالیاتی لُوٹ مار میں لگا دیا ہے۔ تعصبات سے آلودہ یہ صورتحال پاکستان کے لئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ پاکستان جو اِس وقت خوفناک داخلی جھگڑوں میں اُلجھا ہوا ہے، کی سیاسی و عسکری قیادت اور عوام کو غیرمعمولی تدبر، بالغ نظری اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دستور، پارلیمان اور سماجی عدل کے اصولوں کے ساتھ کامل وابستگی ہی سے خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)