اپنے ننھے ’’فرشتے‘‘ کو بچائیں

June 02, 2019

’’ بیٹا ،آپ کے ابو نےمجھے کہا ہے کہ میں آپ کو کھلونے دلوا دوں۔‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے، پر انکل، ابو کہاں ہیں؟‘‘

’’ بیٹا انھیںکوئی کام ہے ، اسی لیے انھوں نے مجھے آپ کو کھلونے دلانے کا کہا ہے۔‘‘

بچہ، اپنے رشتہ دار یا گھر میںروزانہ نظر آنے والی شکل پر بھروسہ کرتے ہوئے، انسان کے اندر چھپے بے حس بھیڑیے کے ساتھ چل پڑتاہے اور پھر ہمیں سسکیوں اور چیخوں کے سوا کچھ سنائی نہیںدیتا اور ایک دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد والدین یہی سوچ سوچ کر ہر لمحہ ہلکا ن ہوتے رہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ننھی کلی یا معصوم پھول سے صرفِ نظر کیوںکی؟ کیوں ان لوگوں کے سہارے اپنے فرشتوں کو چھوڑ دیا جو شیطان سے بھی دو ہاتھ آگے، بے حسی اور ہوس کی دلدل میںدھنسے ہوئے ہیں۔

ہزاروں اس قسم کے دلخراش واقعات میںسب سے زیادہ ملوث افراد بچے کے قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور والدین کے شناسا پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات میں متاثرہ بچے کے والدین بھی کسی حد تک قصور وار ہوتے ہیں، جو کسی بھی وجوہات کی بنا پر اپنے باغ کے پھولوں کی دیکھ بھال دوسرو ں کے حوالے کرد یتے ہیں۔

ملک میںروزانہ10بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زینب کا واقعہ کی گرد ابھی چہروں سے ہٹی نہیںتھی کہ فرشتہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور بعدازاںقتل کے واقعےنے سب کے دل دہلا دیے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچوں سے بات کرنی چاہئے اور ان کے خلاف ہونے والے آئے روز کے واقعات کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ پولیس کو اپنے فرائضایمانداری سے انجام دینے چاہئیں اور مجرموں کو ایسی قرار واقعی سزائی دلوانی چاہیے کہ آئندہ کسی بھی درندہ صفت شخص کی اس قسم کا بہیمانہ فعل کرنا تو کجا اس بارے میںسوچتے ہوئے بھی روح کانپ اٹھے۔

ہم زینب یا فرشتہ یا انہی جیسے معصوم فرشتوں کے واقعات کی تفصیل میںجائے بغیرآپ سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا اپنے بچوںکی حفاظت خود کریں اور اس ضمن میںقریبی رشتہ داروںپر بھی بھروسہ کرنے سے گریز کریں کیونکہ جتنی محبت، توجہ اور ذمہ داری سے آپ بچوں کی دیکھ بھال خود کرپائیںگے، دوسرا اس کا دس فیصد بھی نہیںکرپائے گا۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور یہی فطرت کا تقاضا ہے۔ اپنے بچوں کو جنسی، ذہنی اور جذباتی استیصال سے بچانے کیلئے والدین کو درج ذیل اقدامات کرنے ضروری ہیں:

٭ بچے جیسے ہی تین سال سے اوپر پہنچیں ، انہیں جسم کے اعضائے مخصوصہ کو خود سے دھونے کا طریقہ سکھائیں، ساتھ ہی انہیںسمجھائیں کہ وہ کبھی بھی کسی کو ،آپ سمیت ، انہیں چھونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب انہیں Good Touch اور Bad Touchکے بارے میںآگاہی مل جانی چاہئے۔

٭ بچے گھر میںاکیلے ہوںتو انہیںاندر سے دروزاہ بند رکھنے کی تاکید کریں، اور آپ کے پاس دروازے باہر سے کھولنے والی چابی ہو۔ انہیںہدایت دیں کہ وہ کبھی کسی اجنبی کیلئے دروزاہ نہ کھولیں ۔ آپ کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو کن لوگوں کی موجودگی پر اعتبار ہے ۔ آپ کو اپنے بچوںکے ٹیوٹر، ملازمین ، ماسیوں اور دور دراز کے رشتہ داروںکے گھر بھی اچھی طرح معلو م ہوں۔

٭ آپ کا بچہ جب بھی باہر ، دوستوں کے ساتھ یا اکیلا کھیلنے کیلئے جائے تو اس پر نظر رکھنا آپ کی خود کی ذمہ داری ہے تاکہ آپ دیکھ سکیںوہ کن لوگوںمیں گھلتا ملتاہے ، اور کیسے کھیلوںمیں دلچسپی رکھتاہے۔ مزید یہ کہ بچے کے تما م دوستوں، سہیلیوںکے گھر کا پتہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے اور ا ن کے والدین سے بھی آپ کی جان پہنچان ہونی چاہئے۔

٭ یہ اصول بھی یقینی طور پر لاگو کریں بلکہ بچوں کو اچھی طرح باورکروادیں کہ گھر میںآپ کی اجازت کے بغیر کون کون نہیںآ سکتا، چاہے آپ خود بھی گھر پر موجود ہوں۔

٭ آپ کا بچہ اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ باہر جانے یا تنہائی میںوقت گزارنے سے گھبراتا ہے یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتاہے تو اسے مجبور نہ کریںبلکہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں وہ آخرایسا کیوںکررہاہے ۔ ساتھ ہی اس کا بھی خیال رکھیںکہ آپ کا بچہ کسی بڑی عمر کے فرد کےساتھ اٹیچمنٹ تو پسند نہیںکرتا۔

٭ بچوں کو کوئی بھی نئی مووی یا ویڈیودینے سے قبل اسے خود دیکھیں یا کوئی بھی کتاب دینے سے پہلے خود مطالعہ کریں ۔ ساتھ ہی کیبل ٹی وی پر آنے والے چینلز پر نظر رکھیں۔ ’’پیرنٹل کنٹرول‘‘ کا آپشن ضرور استعمال کریں۔ ان کارٹون چینلز پر بھی نظر رکھیں جس کے پروگرامز میںبوس وکنار کے مناظر معیوب نہیںسمجھے جاتے۔

٭ اسکول سے آنے کے بعد بچے سے اس دن کی تفصیلات پوچھیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بچوں کو آپ سے شیئر کرنی چاہئے۔

٭ بچے کے روّیے میںاگر تبدیلی آرہی ہے، وہ چپ چاپ ہے، یا جارحانہ روّیہ اپنا رہاہے ، کھانے پینے میںنخرے کررہاہے ، کسی سوچ میںگم ہے یا بات بات پر رونے لگاہے تو اس کی چھان بین کیجئے۔ بچے کے علم میں لائے بغیر اس کی تفتیش کیجئے۔ اسے پیار سے دوستی سے پوچھیںکہ وہ ایسا کیوںکررہا ہے۔ اگر بچہ کسی مخصوص شخص کے بارےمیںشکایت کرتا ہے تو اس معاملے میں خاموشی اختیار مت کیجئے۔

٭ بچے خاص طور پر بچیاںبلوغت کو پہنچنے لگیں تو آپ جنسی معاملات کے بارے میںخود سے درست آگہی دیں۔ اگر آپ یہ کام نہیںکریںگی تو پھر اسے یہ سب باتیں دوسروں سے بےہودہ تشبیہات کے ساتھ ملیںگی جو ان کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔

٭ آپ کے پاس وسائل ہوںتو گھرکے اہم حصوںخصوصاً داخلی راستوںپر کیمرے لگائیںتاکہ ہر آنے جانے والے کا چہرہ ریکارڈ ہوسکے۔ یہ کیمرے موبائل فون سے بھی آپریٹ ہوتے ہیں اور والدین گھر کے باہر سے بھی دیکھ سکتے ہیںکہ گھر پر کیا ہورہاہے۔

٭ شاپنگ مال، پارک ، مقامی بازار یا وہ مقامات جہاں ہجوم ہوتاہے ، وہاں بچوںکا ہاتھ پکڑے رکھیں ، کیونکہ ان مقامات پر بچوں کے گم ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

٭بچوں کو سختی سے منع کریںکہ وہ کسی سے بھی کوئی چیز لے کر کھانے کی کوشش نہ کریں، چاہے وہ چیز انہیںکتنی ہی مرغوب کیوںنہ ہو۔

٭ بچوںکو اسکول چھوڑنے اور لے جانے کی ذمہ داری خود انجام دیں اور بچوں کو باور کروائیںکہ والدین یا انتہائی بھروسہ مند رشتہ دار جیسے چچا یا ماموںکے علاوہ انہیںکوئی وصول کرنے نہیں آسکتا۔

٭ بھروسہ مند اسکول وین میں اگر بچے اسکول آتے جاتے ہیں تو وین ڈرائیور کو تنبہیہ کریں کہ جب تک بچہ گھر میں یا اسکول میں داخل نہ ہوجائے وہ وہاں سے حرکت نہ کرے۔