اب چلے گی بلاول کی مرضی

June 08, 2019

رمضان ختم ہوتے ہی اپوزیشن حکومت کے خلاف زوردار تحریک چلانے کا اشارہ دے چکی ہے اور یہ بھی کہہ چکی کہ اس تحریک کا مقصد حکومت کا خاتمہ نہیں، جو کہ بظاہر ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ جب حکومت ہی ختم نہیں کرنی تو پھر تحریک کیوں۔ گزشتہ کئی دنوں سے بلاول بھٹو اور مریم نواز نے سیاست میں ہلچل مچائی ہوئی ہے میں گزشتہ کالم میں مریم نواز کی سوچ کے بارے میں بتا چکا ہوں، اس کالم میں بلاول بھٹو کی سوچ اور سیاست کا تذکرہ کروں گا۔ مجھ سمیت ملک کی اکثریت حیران ہے کہ اس وقت جبکہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے اور ہر آنے والا دن اُن کی مشکل میں اضافہ کر رہا ہے تو پھر آخر بلاول بھٹو نے ایک ایسی تنظیم کی حمایت کا کیوں فیصلہ کیا جس سے پاکستان کے مقتدر حلقے نہ صرف شدید ناراض ہیں بلکہ اُن کی صفوں میں موجود پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ جس طرح بلاول بھٹو نے ببانگِ دہل محسن داوڑ اور علی وزیر کی حمایت میں قدم اٹھایا ہے اُسے ہم سب جانتے ہیں کہ جلد ہی فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لئے اور اگلے سال ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کراچی میں اس وقت تقریباً پچاس لاکھ پختون آباد ہیں اور غالب امکان ہے کہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں اُسی پارٹی کا میئر منتخب ہوگا جس کے ساتھ پٹھان ووٹوں کی اکثریت ہوگی کیونکہ اردو بولنے والوں کے ووٹ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں بٹ جائیں گے اور اگر پیپلز پارٹی سندھی اور پٹھان حلقوں میں جیت جاتی ہے تو وہ کراچی میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے جو اس کا دیرینہ خواب ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کے اردگرد موجود سینئر لیڈران اُنہیں پی ٹی ایم کی حمایت پر مائل کرتے رہتے ہیں جن میں فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی سرفہرست ہیں جبکہ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ معتدل پالیسی کی بات کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کو اچھی طرح پتا ہے کہ ابھی اُن کے پاس بہت وقت ہے ملکی سیاست پر مکمل طور پر حاوی ہونے کے لئے اور اُن کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں بچا ہے، یہ سوچ ہی اُن کے طرزِ عمل کو انتہائی جارحانہ بنا رہی ہے اور پارٹی میٹنگز میں اُن کا جارحانہ رویہ اور حاکموں کے خلاف ہر حال میں ڈٹ جانے کا فیصلہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ بلاول بھٹو کو معلوم ہے کہ آج نہیں تو کل آصف زرداری کو ضرور جیل ہوگی اور وہ اسی بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی ہر حکمت عملی تیار کر رہے ہیں تاکہ وقت آنے پر پارٹی کی سیاست کم ہونے کے بجائے بڑھے۔ بلاول وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت کے لئے جو مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں اور جس طرح این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم کو وفاقی حکومت نے روکا ہوا ہے، اُس پر شدید غصہ ہیں کیونکہ اُس کے باعث سندھ حکومت کی کارکردگی پر متاثر ہو رہی ہے۔ بلاول کو کوئی خوف نہیں اگر سندھ میں گورنر راج لگتا ہے کیونکہ ایک تو انہیں یقین ہے کہ اُس کی قانونی حیثیت بہت کمزور ہوگی اور دوسرا انہوں نے بارہا کہا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا اتحاد انتہائی غیر فطری ہے جس میں کسی بھی وقت بدترین دراڑیں پڑ سکتی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی بھی انہی حلقوں سے ووٹوں کی طلبگار ہے جہاں سے ایم کیو ایم ہے، مگر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایم کیو ایم اپنے اکثریتی علاقے پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دے اور یہی سب سے بڑی وجہ بنے گی بلدیاتی انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان بدترین اختلافات کی، جس کا توڑ کسی کے پاس نہیں ہوگا سوائے راستے جدا کرنے کے۔ ویسے بھی ایم کیو ایم پی ٹی آئی پر سو فیصد اعتبار نہیں کرتی اور بحالت مجبوری اس وقت حکومت کے ساتھ ہے۔ اُس کے خیال میں یہ بہترین وقت ہے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر سندھ حکومت سے ہاتھ ملانے کا بصورت دیگر بلدیاتی انتخابات میں جانے کے لئے ایم کیو ایم کے پاس کوئی نعرہ نہیں ہوگا اور پھر ایم کیو ایم اپنی بچی کھچی ساکھ بھی کھو دے گی۔ بلاول اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں گزشتہ دورِ حکومت میں نواز حکومت کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن نہیں بننا چاہئے تھا، اس کا سب سے بڑا نقصان پنجاب میں ہوا جہاں ووٹرز نے ہمیں اور نواز لیگ کو ایک ہی سمجھا اور ووٹ الیکٹ ایبلز کے حق میں چلا گیا۔ بلاول کے خیال میں آج کل پاکستان میں سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ سیاسی جماعت میں موجود سیاسی جنات کی حکومت ہے اور یہ جنات وہ ہیں جو جعلی طریقے سے جیت کر آئے ہیں۔

بلاول کو پورا یقین ہے کہ عمران خان کی حکومت جلد خود بخود ہی ختم ہو جائے گی اور پھر پاکستان میں حقیقی جمہوری جماعتیں ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں گی۔ وہ اس سلسلے میں اس لئے بھی زیادہ پُرامید ہیں کہ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے قوم کو جو خواب دکھائے تھے ہوا بالکل اُس کے برعکس اور بجائے اس کے کہ معاشی حالت بہتر ہوتی، قوم مزید مہنگائی کے چُنگل میں پھنس گئی ہے اور رفتہ رفتہ اس شدت میں سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے سبھی پریشان ہیں۔ بعض حلقوں کاخیال ہے کہ اگر چھ مہینے میں حالات میں بہتری نہ آئی تو امکان ہے کہ اسمبلی میں تبدیلی لائی جائے گی یا پھر نئے انتخابات بھی ہو سکتے ہیں، اسی لئے اچانک اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔