معاشی بحران کی آمد

January 30, 2013

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک نئے پروگرام کی بات چیت کے آغاز سے حکومت نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے جسے وہ اس سے قبل قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی کہ کسی بیل آؤٹ پیکج کے بغیر تیزی سے گھٹتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران کے سامنے پاکستان اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدیدار جیفرے فرینکس نے جو اس وقت بعد از پروگرام مانیٹرنگ پر مشاورت کے لئے اسلام آباد میں ہیں کہا کہ پاکستان نے تاحال کسی نئے پیکج کے لئے رسمی درخواست پیش نہیں کی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ اس سلسلے میں میدان ہموار کرنے کے لئے بات چیت جاری ہے۔ دو ماہ قبل پاکستان کے فنانس منسٹر کے دورہ واشنگٹن کے دوران آئی ایم ایف سے ایک غیر رسمی درخواست کی گئی تھی کہ وہ ایک اسٹینڈ بائی پروگرام کے امکان پر غور کرے۔ جنوری میں اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت اس عمل پر پیشرفت کا پتہ دیتی ہے۔ اس سلسلے میں بات چیت کو ملک کی تباہ ہوتی بیرونی حیثیت کی روشنی میں شروع کیا گیا تھا جس کی وجہ سے مضبوط ترسیلات زر کے باوجود مالی خلا کے باعث زرمبادلہ کے بحران کا خطرہ شدید تر ہو چکا ہے جسے بیرونی آمد کے خشک ہوتے سوتے پُر نہیں کر سکتے۔ ادائیگیوں کے توازن کا بحران فی الوقت ناگزیر نظر نہیں آ رہا مگر موجودہ منفی رجحانات اور بیرونی سرمایہ کاری کی عدم موجودگی میں آنے والے مہینوں میں اس سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔ ان رجحانات میں ایک ایسے وقت میں بیرونی سرمائے کے خشک ہوتے سرچشمے اور بیرونی قرضوں کی بڑھتی ہوئی ادائیگیوں کا بوجھ شامل ہے جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور روپے کی قیمت بری طرح گر چکی ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ معیشت آخری ہچکی کب لے گی جب کہ معاشی پریشانی عروج پر ہو گی، سرمائے کو پر لگ چکے ہوں گے اور نتیجتاً روپے کی قیمت بلا روک ٹوک زوال کا شکار ہو چکی ہو گی۔ اسلام آباد میں بات چیت کا انعقاد میکرو اکنامک کے تباہ حال اور مہیب تناظر میں کیا گیا۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال بجٹ خسارہ قومی مجموعی پیداوار کا 7 تا 7.5 فی صد ہو گا جو 4.7 فی صد کے سرکاری تخمینے سے بہت زیادہ بلند ہے۔ اس میں بجٹ میں شامل نہ کئے جانے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائز میں نقصانات اور سرکاری بوجھ کا سبب بننے والے ہلکے قرضوں کی وجہ سے جنم لینے والے نیم مالیاتی خسارے شامل نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال محصولات کی صورتحال مزید ابتر رہی ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں مایوس کن کم ٹیکس ملک کے غیر حل شدہ مالیاتی بحرانات کی جڑ ہے۔ اصلاحات سے عاری توانائی کا شعبہ سرکاری وسائل کی شہ رگ سے کسی خون آشام کی طرح چپٹا ہوا ہے جہاں دی جانے والی مراعات اور بین الاداراتی قرضوں کی شرح جی ڈی پی کے1.5فی صد سے زائد ہے۔ اس شعبے کا آسیب نہ صرف یہ کہ نمو کی جڑ کاٹ رہا ہے بلکہ مالی مسئلے کے اسپ سرکش کے عقب میں مزید ہولناک آوازیں بھی لگا رہا ہے۔ ایک طرف ملک ایک کم توازنی شکجنے میں پھنسا ہوا ہے تو دوسری طرف جامد نمو کے جلو میں افراط زر کا دباؤ بدستور برقرار ہے۔ ملک کی بیرونی حیثیت اس سب سے زیادہ تباہ حال ہے۔ تمام تر زیریں رجحانات منفی پہلو کے حامل ہیں تاہم وقتی سہاروں نے جس میں امریکہ کی جانب سے اتحادی سپورٹ فنڈ میں ملنے والے 2 بلین ڈالر بھی شامل ہیں رواں سال کے ابتدائی نصف حصے کو فریب کن طور پر مستحکم بنا دیا ہے۔ اسی طرح تیل کی کم قیمتوں نے جاری کھاتے کے خسارے کو وسیع ہونے سے روکنے میں مدد دی ہے مگر زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے ساتھ آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف کو واپس دی جانے والی قرضوں کی اقساط کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کہیں سے بیرونی آمد زر کا انتظام نہیں ہوتا حکومت اس وقت تک فنانسنگ کی بیرونی ضروریات کو پر کرنے کے قابل نہیں ہو گی۔ چونکہ اس وقت ملکی تاریخ میں بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر ہے اور بیرونی آمد زر کے سوتے تیزی سے خشک ہو رہے ہیں اس لئے ملکی معیشت کے افق پر ایک مکمل ترین بحران کی آمد ہویدا ہے۔
رواں مالی سال میں آئی ایم ایف کو 1.6بلین ڈالر کی مزید اقساط ادا کی جانی ہیں جب کہ اس کے علاوہ مزید2بلین ڈالر بھی جولائی، دسمبر 2013ء کے دوران ادا کئے جائیں گے۔ مرکزی بنک میں زرمبادلہ کے8.7بلین ڈالر کے موجودہ ذخائر صرف دو ماہ کی درآمدات کو پورا کر پائیں گے جب کہ مزید ادائیگیاں ذخائر کو خطرناک ترین سطح تک کم کر دیں گی جس کے نتیجے میں ملک بیرونی ادائیگیوں کی مد میں نادہندہ ہونے کی دہلیز تک پہنچ سکتا ہے۔ ایکسچینج ریٹ پر دباؤ پہلے ہی روپے کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ سطح تک کم کر چکا ہے۔ مالی بحران کے اس آسیب نے حکومت کو جو آئی ایم ایف کے سابقہ پروگرام کو نافذ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے دوبارہ اسی ادارے کے پاس کشکول لے جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب تک ہونے والی بات چیت میں حکومت نے ایک نئے اسٹینڈ بائی پروگرام کا اہل ہونے کے لئے تیار کردہ مالیاتی منصوبے اور اقدامات کا اشارہ دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کے عہدیدار ان تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں اور دیگر درکار اقدامات کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ اس وقت آئی ایم ایف ملکی معیشت کے ساختیاتی مسائل کے حل کے لئے پیوند سازی اور نیم معیاری اقدامات کے بجائے سخت ترین اصلاحاتی اقدامات کا مطالبہ کرے گا۔ اس ضمن میں پاکستان کے سابقہ ہچکچاہٹ زدہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ نیا مالی پیکج اس شرط پر جاری کیا جائے کہ اسلام آباد کو پہلے پالیسی اقدامات کا اعلان کرنا ہو گا جب کہ اس بار2008ء کی نسبت قرضے کی فراہمی کا عرصہ مزید طویل ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی پی پی کی اتحادی حکومت جس کے پاس اقتدار کے کم و بیش دو ماہ باقی بچے ہیں کس طرح آئی ایم ایف پروگرام پر بات چیت کو حتمی شکل دی سکتی ہے۔ اصلاحات سے بیزار اور طویل عرصے سے پالیسیوں میں جمود کا شکار حکومت کسی بھی طرح اس حیثیت میں نہیں کہ وہ انتخابات کی دہلیز پر کھڑے ہو کر آئی ایم ایف کے مطالبے پر سخت ترین سیاسی فیصلے کر سکے لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کا مقصد انتخابات سے قبل مارکیٹوں کی ڈوبتی سنبھلتی کشتی کو کسی نہ کسی طور سطح آب پر برقرار رکھنے کے سوا کچھ اور نہیں۔ آئی ایم ایف کے دورے پر آئے ہوئے اہلکار کی جانب سے دیئے گئے بیانات اس بات کے عکاس ہیں کہ آنے والے انتخابات کے تناظر میں فنڈ ایک نیا پروگرام جاری کرنے سے قبل اہم سیاسی جماعتوں سے ’گہری اور وسیع‘ شرائط طے کرنا چاہے گا۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اس عمل کی نظیریں موجود ہیں۔ کیا حکمراں جماعت کی مخالف جماعتیں اسے اس تناظر میں مدد دیں گی؟ اس بات کا امکان نظر نہیں آتا۔ کیا عبوری حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ تکلیف دہ اصلاحات کی شرائط پر کسی نئے پروگرام کو طے کر پائے گی؟ کیا اس کے پاس ایسا کرنے کا مینڈیٹ اور وقت ہو گا؟ یہ کارنامہ 1993ء میں معین قریشی کی عبوری حکومت نے تو انجام دے لیا تھا مگر آج کی صورتحال میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ پھر نتائج کے حوالے سے غیر یقینی انتخابات کے تناظر میں یہ بات بھی غیر یقینی ہے کہ آیا آئی ایم ایف ایک عبوری حکومت سے نئے پیکج کے سلسلے میں معاملات طے کرنا چاہے گا۔ حالیہ مثال مصر کی ہے جہاں آئی ایم ایف عبوری حکومت کے ساتھ کسی معاہدے کو شکل دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتا تھا۔ دیگر عالمی مثالیں اسی بات کی عکاس ہیں کہ آئی ایم ایف نے متعدد ممالک میں انتخابات کے بعد ہی سنجیدہ بات چیت کا آغاز کیا۔ اس تناظر میں گو کہ مستقبل کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی مگر جس بات میں کوئی شک نہیں وہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کو ورثے میں ایک تباہ حال معیشت ملے گی اور غیر مستحکم بجٹ، ادائیگیوں کے توازن کے خسارے، زرمبادلہ کے قلیل ذخائر، ریکارڈ داخلی و بیرونی قرضے، ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر داخلی و بیرونی سرمایہ کاری، زوال پذیر نجی شعبہ، بلند افراط زر اور معیشت کی رگ جاں سے لپٹے توانائی کے غیر حل شدہ مسائل اس کے ہم رکاب ہوں گے۔ چنانچہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ آیا اگلی حکومت پارلیمانی طور پر اتنی مضبوط اور سیاسی قوت ارادی سے بہرہ ور ہو گی کہ وہ دروازے پر دستک دیتے مالی بحران کے آسیب کو روکنے کے لئے تیز ترین اور فیصلہ کن اقدامات کو بروئے کار لا سکے!