شہری اداروں کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت

August 06, 2019

دو دن کی بارش اور بیس جانوں کا ضیائع۔ ایک طرف انسان اپنے آپ کو ٹیکنالوجی کے عروج پر لے گیا ہے۔" مصنوعی ذہانت" اور " روبوٹس" پرانحصاری کی باتیں ہورہی ہیں۔ اور دوسری طر ف پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ بارش کے پہلے قطرے گرتے ہی مواصلاتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے،بجلی کی سپلائی منقطع ہوجاتی،ٹیلی فون مردہ ہوجاتے ہیں۔(اب چونکہ زیادہ تر لوگ PTCL کا استعمال نہیں کرتے اس لیے اس کا شوربھی نہیں مچتا)کیا یہی ترقی کی معراج ہے کہ " انڈرپاس"پورا پانی میںڈوب جائے اور " پلوں " سے پانی رسنے لگے۔سونے پہ سہاگا کچھ دنوں پہلے بنی ہوئی " سپرہائی وے" پانی میں ڈوب جائے جوکہ اصل میں موٹروے M9 تھی۔ ہنساجائے یا رویا جائے سمجھ نہیں آتا ہے۔ ایک طرف پانی کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے اور جب قدرت کبھی پانی بھیج دے تو پورا شہر سیلاب زدہ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں قصوروار کوئی نہیں! الزامات کی بھرمار ہے۔ لیکن مسائل کے اسباب جاننے اور اس کے حل کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔نئی حکومت کے آتے ہی " ادارتی اصلاح" یعنی اداروں میں اصلاح کرکے کیسے نظام کو درست کیا جائے کی اہمیت پہ زور دیا" ماہرین" بھی ــ ـ" بھاری مشاہرہ " پہ تعینات ہوچکے ہیں۔ لیکن ادارتی اصلاح کہیں نظرنہیں آتی۔ کراچی ہویالاہور دونوں بڑے شہر اور ترقی یافتہ شہر قرار دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ایک بارش میں دیہات بن جاتے ہیں۔ دراصل دونوں کے مسائل ایک ہی ہیں۔ وہ ہے نکاسی آب کا سوسال سے زیادہ پرانا نظام اور اس نظام میں بغیر کسی بہتری کے نئے نئے رہائشی اور کمرشل منصوبوں کی بھرمار ۔جس کی وجہ سے ان شہروںمیں آبادی کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طرف وہ نکاسی آب (سیوریج) کانظام جو کہ چند لاکھ لوگوں کے لیے تھا۔اسی نظام میں اب کراچی میں دو کروڑاور لاہور میں ایک کروڑ افراد رہائش پذیر ہوں تو ایسے میں سیوریج کے نظام پہ کتنا دباؤپڑتا ہوگا؟ پھر اسی طرح کچرے میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے لیکن "Solid waste management"سولڈویسٹ مینجمنٹ کا کوئی نظام وضع نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ کچرے نکاسی آب کے نظام میںخلل ڈالتے ہیں اور بارشوں کی صورت میں وہ over flow کا شکارہوجاتے ہیں۔ اب وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ نکاسی اب کے سوسال پرانے نظام کو اب کروڑوں لوگوںکی ضروریات کے مطابق بنایا جائے۔یقیناً اس میں پیسہ اور وقت درکارہوگا۔ لیکن اس کے بغیر گزارہ ممکن بھی نہیں ہے۔ دوسرے کچروں کو ڈھکانے لگانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ سوکھے، گیلے اور ری سائیکل ہونے والے کچروں کو الگ الگ کیا جائے تاکہ جس کو تلف کرنا ہو اسے تلف کیا جائے۔ جسے ری سائیکل کیا جاسکتا ہو اسے ری سائیکل کیا جائے ۔ اور جن کچروں بجلی بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے توایسے منصوبوں کی حوصلہ افزائی جائے تاکہ بجلی کی کمی اور کچرے کے ڈھیر کا مسئلہ حل ہوسکے۔ندی نالوں میں کچرا پھینکنے پہ سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ ندی نالوں پہ بنے پارکنگ لاٹ ، پارکس اور گوداموں کو مسمار کرکے انہیں ان کی پرانی شکل میں بحال کیا جائے۔ کسی بھی قسم کی نئی رہائشی اسکیم کو ان دونوں شہروں میں متعارف کروانے سے فی الحال روکا جائے ۔ تاوقت یہ کہ نکاسی آب اور پانی کی فراہمی، بجلی اور گیس کی فراہمی آبادی کی مناسبت سے نہ ہوجائے۔ ورنہ آج شروع ہونے والے رہائشی منصوبے کل ان کے مکینوں کے لیے وبال جان نہ ہوجائیں ۔ مثال کے طور پر جب کراچی شہر کے نکاسی آب کا نظام لیاری ندی سے گزر کر سمندر میں جاتا ہے۔اور جب دباؤ بڑھتا تو ہے اس کا نظام الٹاہوجاتا ہے۔ ایسے میں نئی بننے والی " کالونیاں" چاہے وہ جتنی بڑی گولف کلب بنالیں، کرکٹ اسٹیڈیم قائم کرلیں، کارنیول اور ڈزنی ورلڈ بھی ، لیکن سیوریج کا نظام اسی لیاری ندی سے گزر کر ہی سمندر میں گرے گا۔جب وہاں باقاعدہ آبادی ہوجائے گی تو کیا ہوگا؟بالکل اسی طرح ایک خاندان کے رہنے والے گھر پر فلیٹ کے نام پر 30 سے چالیس گھرانے آباد کئے جائیں گے تو کچرے کی بھرمار ، سیوریج سسٹم کا over flow ہونا، بجلی کی کمی، گیس کی کمی، ٹرانسپورٹ کے مسائل پیدا ہی ہوں گے۔ دوہفتوں پہ مشتمل صفائی کی مہم ایک اچھا آغاز ہے۔ لیکن اداروں میں جب اصلاح نہ ہوگی ، accountability نہ ہوگی، فرائض اور ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جائے گا۔ شہری مسائل اپنی جگہ ہی رہیں گے اور مزید سترسالوں کے بعد بھی لوگ انہیں مسائل سے پریشان ہوں گے۔ بلکہ یہ مسائل اور گھمبیرہوچکے ہوں گے۔ لہذا ضروری امریہ ہے کہ اداروں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان میں coordination بھی قائم کی جائے تاکہ کاموں میں تسلسل جاری رہے۔ ورنہ مرکھپ کہ ہی سہی جی تو ہر شہری بھی لیتاہے۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk