محبت، امن اور بھائی چارے کا درس دینی والے ’’صوفی شاعر روحل فقیر‘‘

August 27, 2019

درگاہروحل فقیر

5ہزار سالہ قدیم تہذیب کی حامل سندھ دھرتی اپنے اندر کتنے راز مخفی کئے ہوئےہے، اس کااندازہ آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ یہ دھرتی روز اول سے ہی محققین کے لئے حیرت کدہ بنی ہوئی ہے، جہاں ایک پردہ اٹھتا ہے تو راز آشکار ہوتا ہے، پھر اس راز کی کوکھ سے مزید پردے فاش ہوتے جاتے ہیں۔ اس دھرتی کی سب سے خاص بات یہ بھی ہے کہ اس دھرتی کو صوفیائے کرام، اولیائے کرام اور بزرگان دین کی سرزمین کہا جاتا ہےجنہوں نے جو فلسفہ و پیغام محبت، بھائی چارے اور امن کا درس دیا ، وہ آج بھی لوگوں کے قلوب و اذہان منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سندھ دھرتی کی ایسی ہی ایک شخصیت، صوفی شاعر روحل فقیربھی ہےجن کی شاعری کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ روحل فقیر کے والد شاہو فقیر، کلہوڑوں کے دور میں عمر کوٹ کے قریبی گائوں پٹ میں رہتے تھے ، جہاں 1733-34ء میں روحل فقیر کی پیدائش ہوئی۔ روحل فقیر کی شاعری کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا مزار سکھر کے نزدیک کندھرا کے گائوں کنڈڑی میں موجود ہے جہاں ان کے عقیدت مند سندھ سمیت دور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔

درگاہ روحل فقیر

روحل فقیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مختلف تعلیمی اداروں کوان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ٹنڈو الہ یارکے علاقے راشد آباد میں ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ہائوسز کو ملک کی مختلف شخصیات کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ان میں ایک ہاؤس روحل فقیر کے نام سے بھی بنایا گیا ہے جہاں طلبا ء رہائش پذیر ہیں۔روحل فقیر کے والد شاہو فقیر نور محمد کلہوڑو کے پاس ملازم تھے۔شاہو خان کے تین بیٹے تھے ، ایک کا نام سلطان، دوسرے کا نام روحل اور تیسرے کا نام میوو تھا، تینوں بیٹوں میں سے روحل فقیر عربی، فارسی، سندھی علم میں تحصیل کی۔ کیوں کہ عمر کوٹ کی حدود راجستھان سے ملتی تھیں اس لئے روحل فقیر راجستھانی اور ہندی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔والد کی وفات کے بعد وہ جوانی میں نور محمد کلہوڑو کی سرکاری ملازمت میں داخل ہوئے اور میاں غلام شاہ کے دور سے توشہ خانے کے ناظم مقرر ہوئے جب کہ کلہوڑوں کے درباری ہونے کے باعث ان کے سفارتی امور بھی نمٹاتے تھے۔جب غلام شاہ کلہوڑو نے 1772ء میں وفات پائی تو ان کے فرزند میاں سرفراز کلہوڑو نے حکومت سنبھالی اس وقت روحل فقیر بھی ان کے ساتھ دربار سے وابستہ ہوگئے، آگے چل کر جب میاں سرفراز کلہوڑو نے میر بہرام خان تالپور کے خلاف منصوبہ بنایا تو روحل فقیر نے اپنے آپ کو دربار ی سیاست سے علیحدہ کرکے استعفیٰ دے دیا۔

روحل فقیر کا دل پہلے ہی ست رنگی دنیا سے بیزار تھا، وہ نام و نمود سے دور بھاگتے تھے اس لئے انہوں نے فقیری کارنگ اختیار کیا۔ سیر وسفر کے ساتھ روحل فقیر نے وسیع مطالعہ کیا اور اپنے گائوں میںگوشہ نشین ہوگئے۔ تھوڑے ہی وقت کے بعد جھوک میران پور روانہ ہوئے اور شاہ عنایت کے سجادہ نشین شاہ عزت اللہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے اور وہ وہاں 25سال رہنے کے بعد مرشد کے حکم پر سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ سندھ میں متعدد مقامات کی سیر کی، خاص طور پر تھرپارکر گھومنے آئے اور عمرکوٹ کے قریب ایک نہرکی کھدائی کرائی ، آگے چل کر ان کے گائوں پرمات پٹ کا نام روحل واہ کے نام سے پہچانا جانے لگا جو آج تک اس نام سے معروف ہے۔جودھ پور اور جیسلمیر میں آج بھی روحل کی وائی بڑی چاہت کے ساتھ گائی جاتی ہے۔جس وقت روحل فقیر جھوک شریف سے واپس اپنے گائوں آئے تو وقت کے حاکم میاں سرفراز نے کچھ لوگوں کے کہنے پر روحل فقیر کو گرفتار کر کے پیش کرنے کے احکامات جاری کئے جس کے بعد سپاہی ان کے گائوں میں ان کے آستانے پر پہنچے اور انہیں میاں سرفراز کے احکامات سنائے جس پر انہوں نے سر جھکا کر جواب دیا کہ بابا کل چلیں گے ۔ دوسرے دن خبر پہنچی کہ میر بہرام کو قتل کردیا گیا ہے۔اس اطلاع کے پہنچنے کے بعدجو سرکاری افراد انہیں گرفتار کرنے کے لئے آئے تھے وہ روحل فقیر کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

روحل فقیر نےجودھ پورکے راجہ بجیا سنگھ کو اپنی تصنیف اگھم وارتا دی، جس میں ویدانت کے بارے میں معلومات دی گئی تھی ، راجہ بجیا، روحل کے علم اور روحانی کمال کو دیکھ کر ان کا معتقدین میں شامل ہو گیا، اور انہیں کہا کہ آپ یہاں رہیں مگر انہوں نے وہاں مستقل رہنا پسند نہیں کیا۔روحل فقیر نے دو شادیاں کی تھیں ، پہلی بیوی سے دو بیٹے شاہو فقیر اور غلام علی فقیر ہوئے اور دوسری بیوی سے بھی دو بیٹےپیداہوئے جن کے نام دریا خان اور خدا بخش فقیر تھے جو سب شاعر تھے۔روحل فقیر نے ہندی، سندھی، سرائیکی میں بھی شاعری کی اور کافی کلام کہے۔ان کے کلام میں سادگی اور تصوف کے بارے میں باریک نگاہی موجود ہے۔روحل فقیر کہتا ہے کہ انسان اپنے رتبے یا عہدے سے بڑا نہیں ہوتا انسان اس وقت بڑا ہوتا ہے جب اس کے خیال نیک اور ارادے مضبوط ہوں، ضمیر کی آواز یہ بھی ہے کہ انسان چھوٹے بڑے کا فرق نہ رکھے۔روحل فقیر نے اپنی مادری زبان سرائیکی زبان میں بھی شاعری کی ہے ۔روحل نے زندگی کے آخری دنوں میں دنیا کے ہنگاموں سے بیزار ہو کر اپنے خاندان کے ہمراہ کوٹ ڈیجی کے قریب کوٹلی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہائش اختیار کی۔ ان کے معتقدین زیادہ تعداد میں وہاں آتے تھے یہ بات وہاں کے زمیندار کو پسند نہیں آئی۔ ایک مالدار شخص اور فقیرکی آپس میں چپقلش چل گئی، اس لئے انہوں نے وہاں سے نقل مکانی ضروری سمجھی ۔ وقت کے حکام میر صاحب نے انہیں بہت روکا مگر روحل فقیر خدا پر توکل رکھ کر بنا کسی منزل اور مقام کا تعین کیے، آگے بڑھے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ کنڈڑی (کندھرا، روہڑی) کے قریب آئے تو اس وقت یہ علاقہ جنگل اور غیر آباد تھا۔

ان کی چادر کا ایک پلو ایک چھوٹے سے درخت ک (کنڈے) کی شاخ میں اٹک گیا۔ انہوں نے اسے خدائی حکم سمجھ کر وہاں رہنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہوں نے جنگل کو صاف کرنے کا کام شروع کیا اور وہاں ایک جھونپڑی بنا کر چھوٹی سی بستی آباد کی جس کا نام کنڈڑی رکھا گیا۔یہ علاقہ ضلع سکھر کی تحصیل روہڑی کے نزدیک ہے ۔روحل فقیر کی زیارت کے لیے ملک کے ہر حصے سے طلباء آکر جمع ہوئے جن میں ہندو، اور مسلمان دونوں ہی شامل تھے۔ صوفی فقیر کی رحلت 1804ء میں ہوئی مگر آج بھی ان کے عقیدت مندوں کی ان کی آخری آرام گاہ سے محبت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال عید الاضحی کے چوتھے روز روحل فقیر اوران کے بیٹوں کے عرس کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں سندھ سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے عقیدت مند وہاں آتے ہیں ۔ عرس کی تقریبات کے موقع پر ہر سال لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور مختلف اشیاء کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے ، عرس کے دوران قوالی اور محفل نعت کے پروگرام بھی منعقد جاتے ہیں جن میں بڑی تعداد میں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔