کرکٹ کا نیا ڈومیسٹک نظام سودمند ثابت ہوسکے گا؟

September 03, 2019

ہم نے شاید حالات اور وقت سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہ کی۔غریب ملک میں امرا ء نے پاکستان کرکٹ کے نظام کو تبدیل کردیا۔بیرون ملک سے آنے والے حکام نے تبدیلی سرکار کو حقائق بتانے کے بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کئی سال پرانا پاکستان کرکٹ کا ڈومیسٹک نظام تبدیل کردیا۔نئے نظام میں اب ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ہمیشہ کی طرح ختم کردیا گیا ۔صوبائی ٹیموں کو سسٹم پی سی بی میں ہارون رشید اور ان کی ٹیم کے وہی لوگ لائے ہیں جو کئی سال سے دعوے کررہے تھے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ اس وقت مضبوط بنیادوں پر کام کررہی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے تین ڈائریکٹر ہارون رشید،مدثر نذر اور ذاکر خان بھی ڈپارٹمنٹل کرکٹ کھیلتے رہے ہیں پرانے نظام کے تحت وزیر اعظم عمران خان بھی پی آئی اے کے لئے کھیلتے تھے لیکن اب اسی نظام کو تبدیل کرکے یہ کہہ دیا گیا کہ نیا نظام پاکستان کرکٹ میںانقلاب برپا کردے گا۔حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ پی سی بی کے موجودہ حکمران نجی محفلوں میں یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو کوئی نعم البدل نہیں ہے لیکن وزیر اعظم کے حکم پر یہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔تبدیلی ضرور ہونی چاہئے، لیکن تبدیلی برائے اصلاح کی جائے تو زیادہ اچھی بات ہے۔پاکستان کرکٹ میں بارہ سال میں چوتھی بار پی سی بی آئین کو تبدیل کردیا گیا ۔نئے نظام میںڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرکے چھ صوبائی ٹیمیں فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ میں حصہ لیں گی۔خدشہ ہے کہ ڈپارٹمنٹس سے منسلک سینکڑوں کھلاڑی اب بے روز گار ہوجائیں گے۔ پی سی بی نے بالاخر نئے نظام کے تحت اصلاحات کا اعلان کردیا۔احسان مانی کہتے ہیں کہ اب فٹ اور کوالٹی کھلاڑی آئیں گے۔سسٹم شفاف ہوگا جس میں میرٹ پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔اب کوئی نہیں کہے گا کہ باصلاحیت کرکٹر نظر انداز ہوگیا ہے۔اس سسٹم کو پہلے سال پی سی بی ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے فنانس کرے گا۔سسٹم کو پرفیشنل انداز میںچلائیں گے۔احسان مانی کا کہنا ہے کہ ہمارے سسٹم میں بہتری آنے میں وقت لگےگا لیکن پرامید ہوں نئے سسٹم سے ہماری کرکٹ میں بہتری ضرور آئے گی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پروفیشنل ازم کا معیار دوسرے ملکوں سے بہت کم ہے، ہم ایک دن بہت اچھا پرفارم کرتے ہیں پھر دوسرے ہی دن بہت ہی برا کھیل جاتے ہیں، ہمیں ایسے پروفیشنل کرکٹرز چاہئے جو کسی بھی کنڈیشنز میں بہترین کھیل پیش کرسکیں، آسٹریلوی کرکٹرز ہر طرح کی کنڈیشنر میں بہترین کھیل اس لئے پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان کا سسٹم بہت اچھا ہے۔احسان مانی کہتے ہیں کہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمیں ان کا متبادل کوئی اچھا کھلاڑی نہیں مل رہا۔ احسان مانی نے کہا کہ ہمیں کوانٹیٹی نہیں بلکہ کوالٹی کرکٹ چا ہئے، ہمارے سسٹم میں بہتری آنے میں وقت لگے گا لیکن پر امید ہوں کہ نئے سسٹم سے ہماری کرکٹ میں بہتری ضرور آئے گی۔نئے آئین میں 16 ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز کو ختم کر کے چھ ایسوسی ایشنز کو رکھا گیا ہے اور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی جگہ ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز نے لے لی ہے۔سلیکٹرز نے جن صوبائی ٹیموں کو منتخب کیا تھا انہیں تین سابق کھلاڑیوں مصباح الحق،راشد لطیف اور ندیم خان نے ایک ہفتے کی طویل ملاقاتوں کے بعد تبدیل کردیا ۔سوال یہ ہے کہ کسی بھی خراب سسٹم کو درست کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن اگر صوبائی ٹیموں میں شفافیت لانے کے لئے تین ماہرین نے انہیں تبدیل کردیا لیکن کیا اگر مستقبل میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں کوئی غلط سلیکشن ہوگی تو اسے بھی درست کرنے کے لئے کسی اعلی اختیاراتی کمیٹی کا سہارا لیا جائے گا۔انضمام الحق کی سربراہی میں تین سال کے دوران جس طرح میرٹ کا قتل عام کیا گیا اس کا حساب کون لے گا۔آئندہ شفافیت لانے کے لئے کس کس طرح کے اقدامات لئے جائیں گے۔نئے نظام کے تحت قائداعظم ٹرافی (4 روزہ فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ، فائنل 5 روز پر مشتمل ہوگا) : ایونٹ 14 ستمبر سے 8 اکتوبر اور 28اکتوبر سے 13 دسمبرتک جاری رہے گا۔قومی انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ (3 روزہ اور ایک روزہ مقابلے) : ایونٹ یکم اکتوبر سے 12 نومبر تک جاری رہے گا۔قائداعظم ٹرافی (سیکنڈ الیون، 3 روزہ میچزپر مشتمل ٹورنامنٹ، فائنل مقابلہ 4 روز تک جاری رہے گا) : ایونٹ کے میچز 14 ستمبر سے 10 اکتوبراور28 اکتوبر سے 29 نومبرتک ہوں گے۔قومی ٹی ٹونٹی کپ ( فرسٹ اور سیکنڈ الیون ٹورنامنٹس کا بیک وقت آغاز ہوگا) : میچز13 سے 24 اکتوبر تک جاری رہیں گے، فرسٹ الیون کے کے میچز فیصل آباد اور سیکنڈ الیون کے کراچی میں ہوں گے۔پاکستان کپ ایک روزہ ٹورنامنٹ(فرسٹ اور سیکنڈ الیون کے میچزبیک وقت جاری رہیں گے) : مقابلے 29 مار چ سے 24 اپریل 2020 تک جاری رہیں گے،پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے آئین میں وزیراعظم کے وہ اختیارات ختم کردیے گئے ہیں جو بورڈ کو تحلیل کرنے اور چیئرمین کو ہٹانے سے متعلق تھے۔سابقہ آئین میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرست یا پیٹرن کے طور پر وزیراعظم کو یہ اختیارات حاصل تھے کہ وہ بورڈ کو تحلیل کرسکتے ہیں یا چیرمین کو ہٹاسکتے ہیں۔

کے سی سی اے کے سابق صدرپروفیسر اعجاز فاروقی انڈیپینڈ نس کپ کے میچ کے اختتام پر مین آف دی میچ ایوارڈ دے رہے ہیں اس موقع پر جمیل احمد اور نصرت صدیقی بھی موجود ہیں

ماضی قریب میں اس کی مثال سابق وزیراعظم نواز شریف کی تھی جنہوں نے یہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیئرمین ذکا اشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اس وقت کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عمران خان سے اختلافات کی وجہ سے وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہ سکیں گے۔نئے آئین میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے وزیراعظم کی پالیسی ہدایات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوگا البتہ بورڈ ان کی دی گئی ہدایات پر غور کرسکتا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے آئین میں منیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ ختم کرکے اسے چیف ایگزیکٹیو میں تبدیل کردیا گیا ہے۔وسیم خان اب چیف ایگزیکٹیو کہلا ئیں گے۔چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد کے اختیارات اب مختلف ہوں گے۔نئے آئین میں کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز میں پیٹرن کی جانب سے دو اراکین شامل ہوں گے، ۔چار آزاد ڈائریکٹرز کو شامل کیا جائے گا جن میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہوگا۔ بورڈ آف گورنرز میں تین کرکٹ ایسوسی ایشنز کے صدور بھی شامل ہوں گے۔یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے پی سی بی کے نئے آئین کی منظوری چند روز پہلے دے دی تھی جس کے بعد اب حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور نیا آئین نافذ العمل ہوچکا ہے۔کچھ لوگوں نے اس آئین کو عدالت میں چیلنج کیا لیکن لاہور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشین مسترد ہونے کے بعد پی سی بی نے اس آئین کو باقاعدہ نافذ کردیا ہے۔نئے آئین میں گیارہ رکنی جنرل باڈی کی جگہ بھی رکھی گئی ہے۔جب ہم نظام کو تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو ہمیں حقائق کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔فرسٹ کلاس سسٹم میں اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ہیڈ کوچ سمیت بیٹنگ،بولنگ کوچ اور ٹرینر کے لئے جلد تقرریاں کی جائیں گی۔پی سی بی چیئرمین احسان مانی نے کہا تھا کہ جونیئر ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لئے راہول ڈریوڈ ماڈل لایا جائے گا۔اسی سلسلے میںپہلے یونس خان پھر مصباح الحق سے بات چیت کی گئی۔مذاکرات ناکام ہونے کے بعدسابق ٹیسٹ کرکٹر اعجاز احمد کو 3سال کے لیے قومی انڈر19 ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کردیا گیا۔اعجاز احمد 2009 سے پاکستان اے اور انڈر19 ٹیم کی کوچنگ سے منسلک تھے جبکہ پاکستان کی سینئر کرکٹ ٹیم کے بھی اسسٹنٹ کوچ رہ چکے ہیں اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں یہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔اس عہدے کے لیے اعجاز احمد کا مقابلہ سابق مایہ ناز اسپنر ثقلین مشتاق سے تھا لیکن وسیم خان اور مدثر نذر پر مشتمل پینل نے تمام امیدواروں کے انٹرویو کرنے کے بعد اعجاز احمد کا انتخاب عمل میں آیا۔ اعجاز احمد اس دوران انڈر16 ٹیم کی بھی کوچنگ کریں گے اور 5 سے 14ستمبر تک کھیلنے والے انڈر19 ایشیا کپ کے بعد اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔ان کا پہلا امتحان آئندہ ماہ قومی اے ٹیم کا دورہ کینیا ہو گا جہاں وہ 8 ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت کرے گی۔اعجاز احمد 60 ٹیسٹ اور 250 ون ڈے میچوں میں قومی ٹیم کی نمائندگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور انہوں نے دونوں فارمیٹس میں بالترتیب 3ہزار 315 اور 6 ہزار 564 رنز اسکور کیے۔اعجاز احمد کی تقرری کے بعد پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور بولنگ کوچ کی تقرری کی جارہی ہے۔کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے امیدواروں کے انٹرویو مکمل ہونے کے بعد مصباح الحق اور وقار یونس ہیڈ کوچ اور بولنگ کوچ کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔سابق پاکستانی کپتان اور ہیڈ کوچ وقار یونس بھی بولنگ کوچ کے عہدے کے لیے پیش ہوئے اور دوسرے امیدوار محمد اکرم کی جانب سے سابق کپتان کے حق میں دستبردار ہونے کے بعد وقار یونس کے بولنگ کوچ مقرر ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں،انٹرویو کے بعد مصباح الحق ہیڈ کوچ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ محسن حسن خان اور ڈین جونز مختلف وجوہات کی بنا پر شاید یہ عہدہ حاصل نہ کر پائیںگے۔محسن حسن خان کی عمر اس وقت 65 سال ہے اس لیے ان کے کیس میں ان کی عمر آڑے آسکتی ہے جبکہ ڈین جونز کا غیر ملکی ہونا ان کے خلاف جاسکتا ہے کیونکہ ماضی میں غیر ملکی کوچز کا تجربہ پاکستان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں رہا ہے اور اسی وجہ سے سابق آسٹریلوی بیٹسمین ہیڈ کوچ کی دوڑ سے باہر ہو سکتے ہیں۔اگرچہ 2012 میں محسن حسن خان کا بطور عبوری کوچ مقرر ہونا پاکستان کے لیے فائدہ مند رہا تھا کیونکہ اس عرصے میں قومی ٹیم نے متحدہ عرب امارات میں 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں اس وقت کی عالمی نمبر ایک ٹیم انگلینڈ کو وائٹ واش کیا تھا۔لیکن اس وقت ٹیم کی قیادت مصباح الحق کر رہے تھے جنہوں نے آف اسپنر سعید اجمل کے ذریعے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف ٹیم کے بہترین بیٹسمینوں کو چاروں شانے چِت کردیا تھا۔تبدیلی سرکار کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی سب کچھ تبدیل ہورہا ہے۔بڑی بڑی تنخواہوں اور مراعات والے افسران نئے نظام کو مضبوط اور فول پروف قرار دے رہے ہیں۔نئے سسٹم کو پرانے لوگ چلائیں گے۔70سال سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود ابھی ہم اپنے سسٹم کو کبھی سب سے کامیاب اور کبھی سب سے ناکام قرار دیتے ہیں۔عمران خان جب کرکٹ کھیلتے تھے اس وقت سے وہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی مخالفت کرتے تھے۔وزیر اعظم بن کر انہوں نے اپنی پرانی خواہش کی تکمیل کردی ہے۔نیا سسٹم کس قدر کامیاب ہوگا اس کا جواب تو تاریخ اور وقت دے گا۔تبدیلی سے اگر بہتری آتی ہے تو پھر شاباشی ضرور دی جائے گی لیکن ہم نے پی سی بی آئین کو ہر دور میں بدلتے دیکھا ہے۔ہوسکتا ہے کہ پھر کوئی اور پرانے نظام کو بحال کردے لیکن فی الحال بے روز گار کھلاڑیوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ ؎

ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے؟