جی سیون سربراہ اجلاس: ہنگامہ خیز بیٹھک، پُرسکون اختتام

September 08, 2019

24 سے 26 اگست تک فرانس کے شہر، بیارِٹزمیں منعقد ہونے والا جی سیون (گروپ آف سیون) کا45واں سربراہ اجلاس خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ اس موقعے پر سب سے اہم نتیجہ امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بحال ہونے کے امکانات کے طور پر سامنے آیا۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے اگلے چند ہفتوں میں اپنے ایرانی ہم منصب، حسن روحانی سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ اس اہم پیش رفت میں فرانس کے نوجوان صدر، ایمانوئل میکروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دوسری جانب دورانِ اجلاس امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ مزید شدّت اختیار کر گئی۔ تاہم، بعد ازاں ٹرمپ نے چین سے بھی بات چیت کا اعلان کر دیا۔ البتہ اجلاس میں شریک عالمی رہنما پاکستان کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔ واضح رہے کہ اجلاس سے قبل بعض پاکستانی ماہرین کا خیال تھا کہ دُنیا کے امیر ترین ممالک مسئلہ کشمیر کو فوقیت دیں گے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر آئینی اقدام پر بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی کی سرزنش بھی کی جائے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان ماہرین نے جی سیون سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کا بہ غور مطالعہ نہیں کیا تھا۔ یاد رہے کہ گروپ آف سیون کا بنیادی مقصد اقتصادی معاملات کا جائزہ لینا ہے۔ البتہ اگر کسی سیاسی تنازعے کی وجہ سے رُکن ممالک یا دُنیا کی معیشت خطرات کی زد میں ہو، تو پھر سیاسی معاملہ بھی زیرِ بحث آ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی جانب سے ایران پر عاید پابندیوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے ایران کی تیل کی تجارت خطرے میں ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ بحرِ ہند اور آبنائے ہرمز کسی بھی وقت میدانِ جنگ بنتے دکھائی دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ آبنائے ہرمز وہ بین الاقوامی آبی گزر گاہ ہے کہ جہاں سے ایران اور سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے آئل ٹینکرز گزرتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دست بردار ہونے کے بعد دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اسی عرصے میں برطانیہ نے ایک ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضے میں لے کر جبرالٹر پر روک دیا۔ برطانیہ کا مؤقف تھا کہ مذکورہ بحری جہاز شام میں موجود ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز کو رسد فراہم کر رہا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب نے ایک برطانوی بحری جہاز کو قبضے میں لے لیا اور فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے ڈرون طیّارے مار گرائے جانے کے دعوے بھی کیے گئے۔ تاہم، شدید تنائو کے عالم میں بھی ایران مسلسل اپنے یورپی حلیفوں پر مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے زور دیتا رہا۔ چُوں کہ اپنے مفاداتِ کے پیشِ نظر یورپی ممالک بھی ایران سے ہم دردی رکھتے ہیں،چناں چہ ایرانی وزیرِ خارجہ، جواد ظریف ٹھیک اُس وقت فرانس جا پہنچے کہ جب جی سیون اجلاس عروج پر تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا، ایران کشیدگی دُنیا کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ، جواد ظریف اور فرانسیسی حکام کے درمیان ملاقات کا ایک منظر

علاوہ ازیں، اجلاس میں امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ بھی اہمیت کی حامل رہی۔ اس کا آغاز اُس وقت ہوا تھا کہ جب ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے کو عملی شکل دیتے ہوئے امریکا کے لیے چینی درمدآت پر ٹیکسز بڑھا دیے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ امریکا اور چین کے درمیان غیر متوازن تجارت سے امریکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتّب ہوئے۔ مذکورہ امریکی اقدام کے جواب میں چین نے امریکی درآمدات پر محصولات عاید کر دیے، جسے اقتصادی ماہرین نے تجارتی جنگ سے منسوب کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس جنگ میں یورپ اور دیگر ممالک بھی شامل ہوتے گئے۔ تاہم، ان ممالک نے ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ علاوہ بریں،ان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، جو تاحال جاری ہے۔ یہاں قابلِ ذکر اَمر یہ بھی ہے کہ تجارتی جنگ میں شامل انتہائی طاقت وَر ممالک نے کسی مرحلے پر بھی غیر معمولی اقتصادی یا فوجی اقدامات کا ذکر تک نہیں کیا، جس کی وجہ سے شہریوں پر اس کے اثرات مرتّب نہیں ہوئے۔ یہ رواداری اور اقتصادی ہم آہنگی عالم گیریت ہی کا ثمر ہے کہ جس کے نتیجے میں اقوامِ عالم کو ترقّی اور اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے مواقع ملے اور جی سیون ان کی نگہبان ہے۔ کاش! ترقّی پذیر ممالک کی قیادتیں بھی اسی دُور اندیشی اور تدبّر کو اپنا لیں، تاکہ اُن کے عوام جذباتی نعروں کی بہ جائے تعمیری کاموں پر اپنی تمام تر توانائیاں صَرف کریں۔بدقسمتی سے مختلف ادوار میں گھڑے گئے نِت نئے سازشی تصوّرات نے پاکستان سمیت دیگر پس ماندہ اقوام کو خوابِ غفلت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نتیجتاً، وہ کنوئیں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں اور انہیں دُنیا میں ہونے والی سائنسی فتوحات کا علم تک نہیں۔

بہر کیف، جی سیون سربراہی اجلاس کا آغاز جس قدر شور شرابے سے ہوا تھا، اختتام اُتنے ہی پُر سکون انداز میں ہوا۔ اب امریکا اور چین کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور تجارتی جنگ کے جلد یا بہ دیر اختتام کی طرف جانے کی توقّع کی جا رہی ہے۔ امیر ترین ممالک کے رہنمائوں کی اس بیٹھک نے عالمی سطح پر فرانسیسی صدر، ایمانوئل میکروں کا سیاسی قد خاصا بلند کر دیا اور یہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب بریگزٹ اور جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل کے سیاست سے دست بردار ہونے کے اعلان کے بعد یورپ کو ’’نئے خون‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔ میکروں نے جس انداز سے ایرانی وزیرِ خارجہ کی اجلاس میں اینٹری کروائی، اُسے سفارت کاری کا شاہ کار کہا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حسن روحانی کے معتمدِ خاص اور امریکی حکام کے درمیان بات چیت ہوئی اور پھر ٹرمپ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکی و ایرانی حکام کے درمیان اس قسم کا رابطہ اوباما کے دَورِ صدارت میں بھی قائم نہیں ہو سکا تھا، حالاں کہ اُسی زمانے میں تاریخی جوہری معاہدے پر دست خط ہوئے تھے اور دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے لیے ہم دردی کا گوشہ بھی پیدا ہوا تھا۔ دوسری جانب ٹرمپ کو اپنے پیش رَو پر اس وجہ سے بھی سبقت حاصل ہے کہ ان کے عرب ممالک اور اسرائیل سے خوش گوار مراسم ہیں۔ لہٰذا، اگر مستقبل میں واشنگٹن اور تہران کے درمیان کوئی معاہدہ طے پاتا ہے، تو اس میں ان کی رضامندی بھی شامل ہو گی۔ یاد رہے کہ عرب ممالک اور اسرائیل کو اعتماد میں نہ لینے کی وجہ ہی سے تاریخی نیوکلیئر ڈِیل کام یاب نہیں ہو سکی۔

جی سیون سربراہ اجلاس کے دوران ملاقات کے موقعے پر ٹرمپ اور مودی کا بے تکلفانہ انداز

پاکستانی حکام نے بھی جی سیون میں شامل ممالک سے خاصی توقّعات وابستہ کر رکھی تھیں، جو پوری نہ ہو سکیں۔ اجلاس سے قبل کچھ پاکستانی ذرایع ابلاغ اور ماہرین اس اقتصادی فورم کو نریندر مودی کے لیے ’’کٹہرا‘‘ قرار دیتے رہے۔ گرچہ مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ توقّع عبث نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ماہرین بین الاقوامی اداروں کی نوعیت کو سمجھے بغیر ہی ان سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جی سیون خالصتاً اقتصادی نوعیت کا بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے، جس میں صرف وہی مسائل زیرِ بحث آتے ہیں کہ جن کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں معیشت سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانفرنس میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی اداروں کے سربراہان مستقلاً موجود رہتے ہیں۔ نتیجتاً، رُکن ممالک کے رہنمائوں کے لیے مختصر المدّت اور طویل المدّت حکمتِ عملی کی تشکیل ممکن ہو تی ہے اور اسی باعث اہم عالمی تنازعات میں پیش رفت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ 2007ء کے آخر میں پیدا ہونے والے عالمی اقتصادی بُحران سے دُنیا اسی لیے نجات حاصل کر سکی کہ جی سیون اس کے منفی اثرات کو محدود کرنے میں کام یاب رہی اور اس مقصد کے لیے وقتاً فوقتاً اجلاس طلب کیے گئے۔ اس کے برعکس مسئلہ کشمیر کی نوعیت مختلف ہے، لہٰذا اس کو متعلقہ اداروں کے سامنے ہی اُٹھانا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جی سیون کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ٹرمپ، مودی ملاقات سے پاکستانی ماہرین کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس موقعے پر نریندر مودی کا یہ جملہ کہ ’’پاکستان اور بھارت اپنے دو طرفہ معاملات خود حل کر سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہمیں کسی دوسرے مُلک کو زحمت دینے کی ضرورت نہیں‘‘ در حقیقت ٹرمپ سے زیادہ عالمی سفارت کاروں کے لیے تھا۔ بھارتی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’مَیں نے عمران خان سے کہا کہ دونوں ممالک کو مل کر غُربت کے خلاف جنگ لڑنی چاہیے۔‘‘ البتہ ہمارے تجزیہ کاروں کو سب سے زیادہ رنج ٹرمپ اور مودی کی بے تکلفی سے پہنچا، جو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لی۔ دراصل، پاکستانی قوم میں یہ سوچ پروان چڑھائی گئی ہے کہ پاکستان کا دوست، لازماً ہمارےدشمن کا دشمن ہو گا، جب کہ بین الاقوامی تعلقات میں قومی مفادات ہرچیز پر مقدّم ہوتے ہیں اور ہمیں بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی نے نہایت دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنے پہلے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں عالمی رہنمائوں سے بے تکلفانہ روابط قائم کیے اور ان سے اپنے قومی اہداف کی تکمیل کی، چناں چہ بھارتی عوام نے انہیں پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب کیا۔ یاد رہے کہ نریندر مودی کے ذاتی دوستوں میں چینی صدر، شی جِن پنگ تک شامل ہیں، جن کے گھر وہ مہمان نوازی کا لُطف اُٹھاتے ہیں، جب کہ چینی صدر بھی مودی کی رہایش گاہ پر تشریف لا چکے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے مُلک میں غیر ملکی حکم رانوں سے ذاتی تعلقات کو غدّاری اور نہ جانے کن کن القابات سے یاد کیا جاتا ہے، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں، حالاں کہ رہنمائوں کے درمیان پائی جانے والی ذاتی مفاہمت ہی ممالک میں مفاہمت پیدا کرتی ہے۔ اگر وزیرِ اعظم، عمران خان نے سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان کو کار میں بٹھا کر گاڑی خود ڈرائیو کی، تو اس سے یقیناً ملک و قوم ہی کا فائدہ ہو گا۔ اسی طرح اگر نریندر مودی اُس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی گھریلو تقریب میں شرکت کے لیے جاتی اُمراء آئے تھے، تو اس سے بھی قومی مفادات کا حصول ممکن تھا۔ لہٰذا، اگر ہمارے سفارتی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کو سفارت کاری کا یہ انداز سمجھ نہیں آتا، تو پھر سوائے سَر پیٹنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ عوام کو گم راہ کرنے اور اپنے سیاسی رہنمائوں کو غدّار اور بکائو مال قرار دینے کی روش ترک کی جانی چاہیے۔

اس موقعے پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت سے قبل مودی کو دو اسلامی ممالک، متّحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اعلیٰ ترین قومی اعزازت سے نوازا گیا۔ گرچہ ایسے نازک موقعے پر کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر زمین تنگ کررکھی ہے، یہ ایک غیر مستحسن عمل ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ مسئلہ کشمیر کے فریقین پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں اور اسلامی دُنیا منتشر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کبھی بھی مسلمانوں کے قتلِ عام پر ہم آواز نہیں ہوئے۔ گزشتہ سات برس سے شام میں کُشت و خوں جاری ہے ، 5لاکھ بے گناہ مسلمان لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ بشار الاسد کی افواج اور اُن کے حلیف ،شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے بم باری کر رہے ہیں، جس کی تصدیق اقوامِ متّحدہ بھی کر چکی ہے۔ تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ شامی شہری سرحدوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جن کے لیے اقوامِ متّحدہ وقتاً فوقتاً اشیائے خورونوش کی فراہمی کی اپیل کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح او آئی سی مذمّتی قرار دادیں منظور کرتی ہے، جب کہ عرب لیگ شام کی رُکنیت معطّل کرچکی ہے۔ نیز، اقوامِ متحدہ نے شامی مسئلے کے حل کے لیے روڈ میپ بھی دیا، لیکن کیا اسلامی دُنیا بشار الاسد کی افواج، ایران اور رُوس کی جانب سے بم باری اور ہتھیاروں کا استعمال روک پائی۔ اسی طرح دیگر اسلامی ممالک کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں مسلمان حکم راں انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف ہیں۔نیز، اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کی جتنی جنگیں آپس میں ہوئیں، اتنی اغیار سے نہیں لڑی گئیں۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہو گا۔ ہمیں وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ اسلامی دُنیا اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتی ہے اور ہمیں اس کے مطابق ہی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ہم ہر ایک مُلک سے دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ واضح رہے کہ عرب ممالک نے ہمیں اربوں ڈالرز کی امداد دی ہے، نیز خلیجی ریاستوں میں دسیوں لاکھ پاکستانی تارکینِ وطن ملازمتیں کر رہے ہیں، جو ترسیلاتِ زر کی صورت خطیر رقم بھیجنے کے علاوہ کروڑوں افراد کی کفالت بھی کر رہے ہیں، جب کہ محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر عرب ممالک کے حکم رانوں کو برا بھلا کہہ کر ہم انہیں بھارت کے مزید قریب کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ سفارت کاری کا مقصد دشمنوں کو دوست بنانا ہے، نہ کہ دوستوں سے روٹھ کر انہیں دشمن بنا لینا۔ کشمیر کو آزاد کروانے کی جنگ کشمیری عوام ہی کو لڑنا پڑے گی۔ البتہ پاکستان ہمیشہ کی طرح اُن کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اگر ہمیں کشمیریوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں، تو صرف اظہارِ یک جہتی سے کام نہیں چلے گا، بلکہ ہمیں خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہو گا۔ جی سیون کا سربراہی اجلاس ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ بڑی اقتصادی طاقت بننے کے لیے تمام تر اختلافات پسِ پُشت ڈال کر ایک فورم پر جمع ہونا پڑتا ہے۔