لو لیٹر بنام شہباز شریف!

February 14, 2013

میں قرب شاہی کو فتنہ سمجھتا ہوں اس لئے سرکاری تقریبات سے اور اقتدار کے ایوانوں سے دور رہتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میٹروبس کے افتتاح پر تاریخی لمحات ٹیلیویژن اسکرین کے ذریعے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا مگر اگلے دن چاچا پھتو کے ہمراہ” مفتا“ لگانے ضرور پہنچا اب میں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے میاں شہباز شریف کو لو لیٹر لکھ کر اپنے جذبات و احساسات پہنچانا چاہتا ہوں مگر چاچا پھتو ” قیدو“ کی طرح اس معصوم خواہش کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ اس کی باتوں سے یوں لگتا ہے جیسے راجہ ریاض کی روح چاچا پھتو میں حلول کر گئی ہے اور اب وہ مسلم لیگ ن کے سب ” پوشٹر پاڑ “ کر ”بار لے ملک“ فرار ہونا چاہتا ہے۔ نجانے پھتو کس کس سے ادھار کھائے بیٹھا ہے کہ اسے یہ منصوبہ محض خامیوں اور اغلاط کا مرقع و مجموعہ محسوس ہوتا ہے مثلاً اس کا سب سے مدبرانہ و مفکرانہ اعتراض یہ ہے کہ 30/ارب روپے کی خطیر رقم اس پبلسٹی اسٹنٹ پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر عوام کی خیر خواہی مقصود تھی تو پنجاب حکومت ان پیسوں سے کوئی پاور پروجیکٹ شروع کر لیتی، تو انائی کا بحران کم ہوتا تو معیشت کا پہیہ چلتا اور لوگ خوشحال ہوتے مگر خادم اعلیٰ کو بس کا پہیہ رواں دواں رکھنے کا غم کھائے جارہا تھا۔ ایک استدلال یہ بھی کہتے ہیں کہ محض لاہور میں چند لاکھ افراد کو سہولت دینے کیلئے پورے پنجاب کے وسائل جھونکنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں ان نرگسی کوفتہ بازوں کو خیالی پکوان سیاست کی دیگچی میں پکاتے دیکھتا ہوں تو شہباز شریف کی حالت اس باپ بیٹے جیسی محسوس ہوتی ہے جو گدھے پر جارہے تھے، باپ گدھے پر بیٹھا تھا اور بیٹا رسی تھامے چل رہا تھا کچھ آگے جاکر ایک ناصح نے مخمصے میں ڈال دیا ، کہنے لگا کیا زمانہ آگیا ہے باپ خود تو سواری پر بیٹھا ہے معصوم بیٹا پیدل چل رہا ہے۔ باپ شرمندہ ہو کر نیچے اتر آیا اور بیٹے کو گدھے پر بٹھا دیا اگلے چوراہے پر ایک اور مصلح سے پالا پڑا تو اس نے کہا، توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے باپ پیدل چل رہا ہے بیٹے کو پروا ہی نہیں، اب بیٹا جھینپ گیا اور فوراً نیچے اتر آیا چنانچہ دونوں باپ بیٹا پیدل چلنے لگے ایک دریا کا پل عبور کررہے تھے کہ راہ گیر نے پھبتی کسی ،کیسے احمق لوگ ہیں ، سواری ہے مگر پھر بھی پیدل چل رہے ہیں یہ سن کر دونوں باپ بیٹا گدھے پر بیٹھ گئے مگر اسی اثناء میں ایک اور صاحب آدھمکے اور غضب ناک نگاہوں سے دونوں کو گھورتے ہوئے بولے، مریل سے گدھے پر دونوں باپ بیٹا بیٹھ گئے ، بے زبان پر ظلم ڈھاتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ یہ آخری تبصرہ سن کر دونوں کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے مزید تنقید سے بچنے کیلئے گدھے کو دریا میں دھکا دیکر خود کومعترضین و ناقدین کے شر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچا لیا۔ میٹرو بس کو ہدف تنقید بنانے والوں کو بھی اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک میاں شہباز شریف صوبائی حکومت کا یہ گدھا ان کے حوالے نہیں کر دیں گے۔ چاچا پھتو جیسوں نے تو تب بھی آسمان سر پر اٹھا لیا تھا جب سر گنگا رام نے یہاں فقید المثال اسپتال بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، تنقید کرنے والوں کی تب بھی کوئی کمی نہ تھی جب عمران خان نے شوکت خانم اسپتال کا سنگ بنیاد رکھا، بہت سوں کا خیال تھا موٹر وے عیاشی اور فضول خرچی ہے، ایٹمی دھماکے ہوئے تب بھی معترضین کی کوئی کمی نہ تھی حتیٰ کہ پاکستان بنانے پر قائداعظم کو مطعون کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں تو اس چھوٹے سے ترقیاتی منصوبے پر انگلیاں اٹھانے اور کیڑے نکالنے والوں پر کیسا تعجب؟ مخالفت کا جواز ڈھونڈنے والے کہتے ہیں اتنا تو پورے پنجاب کا ترقیاتی بجٹ نہیں جتنا اس ایک منصوبے پر خرچ کر دیا گیا ہے یعنی کل کو بھاشا ڈیم بنانے کا مرحلہ آئے گا تو یہ لوگ نہیں بننے دیں گے کیونکہ15/ارب ڈالر کے اس منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم پورے ملک کی ششماہی برآمدات سے زیادہ ہو گی۔ میرا استدلال یہ ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغ ضرور جلانا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی ناتواں کیوں نہ ہو۔ لندن میں ڈیڑھ سو سال سے انڈر گراؤنڈ ٹرین چل رہی ہے جسے ٹیوب کہا جاتا ہے روزانہ 30 لاکھ افراد اس میٹرو کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور جب ایک دن کیلئے یہ میٹرو بند ہوئی تو برطانوی معیشت کو 48 ملین پاؤنڈ خسارہ ہوا۔ پیرس کا میٹرو سسٹم برطانیہ سے بھی زیادہ پُرکشش و سہل ہے جہاں45 لاکھ افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ نیویارک ، فلاڈ لفیا، بوسٹن سمیت 12/امریکی ریاستوں میں” سب وے“ کے نام سے برق رفتار ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہے۔ کوپن ہیگن، پیرس، منیلا ، سنگاپور ، کوریا، جاپان اور تائیوان میں تو ڈرائیور لیس گاڑیاں خود کار نظام کے تحت چل رہی ہیں اور ہم سے ریپیڈ بس سسٹم ہضم نہیں ہو پا رہا۔ چاچا پھتو میرے ان دلائل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے دوسروں کا سرخ چہرہ دیکھ کر اپنے گال تھپڑوں سے لال کرنے کی کوشش نہ کرو، وہ سب ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہاں ایسے منصوبے چل سکتے ہیں، ہمارے پاس دھیلا نہیں پھر بھی میلہ میلہ کرتے پھرتے ہو۔ اگر چاچا پھتو جیسے خیر خواہ بھارت کو بھی میسر آجاتے تو ہمیں ہمسایہ ملک سے موازنہ کرتے ہوئے ایک اور خفت نہ اٹھانا پڑتی، دلّی میں تو میٹرو سالہا سال سے چل ہی رہی ہے مگر2006ء میں منموہن سنگھ نے بھارتی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں میٹرو ریل شروع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی Nama Metro نامی یہ منصوبہ تین مرحلوں پر مشتمل تھا اور اس کی لمبائی 42.3 کلو میٹر تھی، صرف پہلے مرحلے کی تعمیر کی لاگت2.11/ارب ڈالر تھی یہ منصوبہ 2006 ء میں شروع ہو کر مارچ2010 ء میں مکمل ہونا تھا مگر20/اکتوبر2011 ء کو یہ منصوبہ مکمل ہوا اور پہلے دن60 ہزار افراد نے اس ٹرین کے ذریعے سفر کیا۔کیا یہ کسی معجزے سے کم ہے کہ جس ملک میں ایک پل بنانے پر سالہا سال لگ جاتے ہیں وہاں ایک سر پھرے حکمران نے میٹرو بس کا خواب دیکھا اور11 ماہ کی ناقابل یقین مدت میں اس خواب کو عملی تعبیر دینے کا دعویٰ سچ کر دکھایا ؟ میاں صاحب کے مدح سراہ اورمعترضین کااس پروجیکٹ کو شیر شاہ سوری کے جی ٹی روڈ سے تشبیہ دینا بھی درست نہیں مگر ان کے معترضین و مخالفین کا اس ٹریک کو دیوار برلن قرار دینا بھی صریحاً غلط ہے اگر نیلسن منڈیلا کے الفاظ مستعار لوں تو میاں شہباز شریف ایک اچھے سیاستدان ہیں مگر قائد ہر گز نہیں، منڈیلا سے ایک صحافی نے پوچھا قائد اور سیاستدان میں کیا فرق ہے؟ نیلسن منڈیلا نے کہا ، سیاستدان آئندہ انتخابات کو پیش نظر رکھتا ہے مگر قائد آئندہ نسلوں کی فکر کرتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے بھی ایک جہاندیدہ سیاستدان کی طرح اپنے دامن میں ایک اور کارنامہ سمیٹنے کی کوشش کی ہے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟ یہی تو انتخابی سیاست کا حسن ہے کہ لوگ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگتے ہیں۔ اگر یہ الیکشن اسٹنٹ ہے تو سب کے سامنے کھلا میدان ہے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت ہنگامی بنیادوں پر پاور پلانٹ لگاتی، بجلی کا بحران ختم کرتی اور سب کو مات دے دیتی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، یہی کام قائم علی شاہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا خاتمہ کر کے انجام دے سکتے تھے، خیبر پختونخوا میں امیر حیدر ہوتی با اختیار تھے، پشاور کو چار چاند لگا دیتے، اسلم رئیسانی کو چٹکلوں سے فرصت میسر آتی تو کوئٹہ کا نقشہ بدل دیتے مگر یہ کام شہباز شریف نے کر دکھایا تو اس قدر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟چاچا پھتو نے مجھے بھٹکا دیا وگرنہ میرا ارادہ تو ویلنٹائن ڈے پر خادم اعلیٰ کے نام لو لیٹر لکھنے کا تھا۔ سو آخر میں چند پیار بھرے جملے اس توقع پر شامل کررہا ہوں کہ یوم محبت پر کہے گئے الفاظ کا برانہیں منائیں گے۔
”ہم سب کے شہباز!
کاش آپ خود کو لاہور کا میئر نہ سمجھتے پورے صوبے کی قیادت کا حق ادا کرتے، کاش آپ نے سید یوسف رضا گیلانی کو ملتان اور سردار ذوالفقار کھوسہ کو ڈی جی خان پٹے پر نہ دیا ہوتا، میاں نواز شریف کا احترام اپنی جگہ مگر سرکاری خرچ پر منعقد کی گئی ایک تقریب میں ان کا کیا کام تھا؟ جب مریم نواز لیپ ٹاپ بانٹتی ہیں اور بڑے میاں صاحب پیلی کالی ٹیکسی کی چابیاں تقسیم کرتے ہیں تو ”بدلا ہے پنجاب ، بدلیں گے پاکستان“ کا نعرے پھُسپھُسا لگتا ہے۔ آپ کی ویلنٹائنی یعنی ہم عوام آپ کو یہی کہنا چاہتے ہیں لگے رہو شہباز میاں کیونکہ” شہباز کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا“۔