آرٹیکل 149 چھوڑیں، سیاسی جماعتیں سندھ کے مسائل کا حل ڈھونڈیں

September 19, 2019

کراچی کے حالات اور مسائل کو لے کر وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے کراچی میں آرٹیکل 149 کا اطلاق کرنے کا عندیہ دے کر سندھ کی سیاست میں تلاطم پیدا کردیا تھا گرچہ بعد ازاں انہوں نے اس بات کی تردید کی اور کہاکہ ان کے بیان کو غلط منسوب کیا گیا ہے تاہم اخبارات میں جو رپورٹ ہوا اس کے مطابق وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کراچی میں آرٹیکل 149 (4)کے نفاذ کا وقت آچکا ہے مسائل حل کرنے ہیں تو سخت فیصلے کرنے ہوں گے ہر آرٹیکل گورنرراج کی بات نہیں کرتا بلکہ وفاقی حکومت کو خصوصی اختیارات دیتا ہے اس آرٹیکل کے نفاذ سے کراچی کے انتظامی معاملات وفاق کے سپرد ہوجائیں گے وفاقی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی پر وفاق کے کنٹرول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔گیارہ سال میں پی پی پی نے سندھ کے دیہات اور شہر تباہ کردیئے اب وفاق کی مداخلت ضروری ہے وفاقی وزیر کے بیان کے بعد سندھ میں سیاسی بھونچال آگیا ایم کیو ایم کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا خود پی ٹی آئی کے اندر سے اس آرٹیکل کے نفاذ کی مخالفت کی بات کی گئی پی پی پی ، جی ڈی اے ، قوم پرست جماعتوں سمیت اے این پی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا وفاقی وزیر قانون کے بیان پہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بھٹو زرداری نے کہاکہ ہم کسی بھی صورت سندھ کے خلاف کوئی بھی سازش برداشت نہیں کریں گے کل وفاق نے کراچی پر قبضے کا پلان پیش کیا ، اب اس غیراخلاقی وغیرہ جمہوری حکومت کو گھر جانا ہوگا ، حکومت کے سلیکٹرزکو بھی پیغام ہے کہ وہ بھی ہوش کے ناخن لیں اور عوام کی بات کو سنیں اب اس سلیکٹڈ حکومت کو چلنے نہیں دیا جائے گا، عمران خان کو دھاندلی ملا اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ کل بنگلا دیش بنا تھا، اگر آپ کا ظلم جاری رہا تو کل سندھودیش بھی بن سکتا ہےاورپختونستان بھی۔

غیرجمہوری قوتیں ہوش کے ناخن لیں ہم کسی صورت ملک کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔پی پی پی رہنماؤں نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔رضاربانی نے کہاکہ یہ مسئلہ کچرے کا نہیں ہے، وفاق صوبوں کو صرف تجاویز دے سکتا ہے اس ناٹک کو بند کیا جائے 18 ویں ترمیم میں اس شق کو نکال دیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ اگر 18 ویں ترمیم کو رول بیک کیا گیا اورچھوٹے صوبوں کی بات نہیں مانی گئی تو چھوٹے صوبے وسیع اتحاد بنانے پر غور کریں گے،آرٹیکل 149/4 کا نفاذ کراچی کی سندھ سے علیحدگی کا پہلا قدم ہے، سندھ کی تقسیم ہوئی تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوں گے۔

صوبائی وزیر سعیدغنی نے کہاکہ سندھ کے عوام اور ان کی قیادت کراچی کے خلاف کسی بھی گھناؤنی سازش کو برداشت نہیں کریں گے،آرٹیکل 149 کراچی کے مسائل کاحل نہیں ہے اسے غیرآئینی مداخلت اور صوبائی خودمختاری پر حملہ سمجھا جائے گا لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی سندھ کےصدر نثار کھوڑو نے آرٹیکل 149 کو سندھ پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ سندھ کو دولخت کرنے میں وزیراعظم آلہ کار بن چکے ہیں، اتوارسے سندھ بھر میں احتجاج شروع کیا جائے گا ایسی باتوں سے سندھ کوتوڑنے والوں کو تقویت ملی ہے سندھ پر پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں کالاباغ ڈیم کی بات کی گئی تو جناح پور کا نقشہ اور منصوبہ سامنے آیا۔جواب آں غزل کے طور پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کہاکہ اگر 149 اتنا ہی غلط ہے تو بلاول کے نانا نے اسے آئین میں کیوں شامل کیا اس آرٹیکل سے صوبے کو کوئی خطرہ نہیں بلاول بھٹو نے سندھودیش کا بیان دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ بے نظیربھٹو کے نہیں الطاف حسین کے پیروکار ہیں۔الطاف حسین نے جناح پور کی بات کی تھی، بلاول نے سندھودیش کی بات کی، بلاول اپنے بیان پر قوم سے معافی مانگیں، سندھ تقسیم نہیں ہونے دیں گے پیپلزپارٹی نے پہلے پاکستان فروخت کرنے کا نعرہ لگایا اور پورے سندھ کو اومنی گروپ کے ذریعے زرداری گروپ کی ملکیت بنادیا، یہ بھٹو کا پاکستان نہیں ہے یہ کپتان کا نیا پاکستان ہے بنگلہ دیش اور سندھو دیش کی بات کرنے والے ملک کے دوست نہیں ہیں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی اپنی پارٹی ہے، انہوںنے جو بیان دیا اس کی وضاحت کردی ان کے بیان کو توڑمروڑ کے پیش کیا گیا۔

آرٹیکل 149 (4 )کا نفاذ ہوتا ہے یا نہیں یا پھر اس کی آئینی حیثیت کیا ہے اس کافیصلہ آئینی ماہرین کو کرنا ہے تاہم بعض حلقوں کے مطابق یہ بیان پی پی پی پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھا جس کا پی پی پی اندازہ نہیں کرسکی اور چونکہ یہ بیان فروغ نسیم کی جانب سے آیا تھا لہذا اس کے مثبت یا منفی اثرات پی ٹی آئی پر نہیں پڑے تاہم کچھ دنوں کے لیے سیاست کا رخ تبدیل ہوا پی پی پی دباؤ میں آئی اسےبیک فٹ پر جانا پڑا کراچی کودارلحکومت بنانے کی باتیں بھی آغاسراج درانی اور ڈاکٹرفاروق ستار کی جانب سے سامنے آئی یہ بھی کہاجارہا ہے کہ بعض قوتوں نے کراچی میں مسائل پیدا کئے ان کے حل میں رکاوٹیں ڈالی اور پھر ان مسائل کو ہوا بناکر پیش کیا کراچی میں مسائل موجود ہے تاہم حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت پی ٹی آئی کی ہے صوبائی حکومت پی پی پی کی ہے بلدیاتی حکومت ایم کیو ایم کی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ کراچی کے مسائل حل نہیں ہورہے اب بات آرٹیکل 149 کے نفاذ پر چلی گئی ہے عوامی حلقوں کے مطابق یہ تینوں جماعتیں مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ادھر بلاول بھٹو نے نوڈیرومیں کہاکہ معاشی حقوق نا ملنے سے صوبہ دیوالیہ ہواوفاق کو بچانے کے لیے غیرجمہوری قوتوں کا مقابلہ کریں گے ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا اتحاد کچرے کا بہانہ بناکر کراچی پر قبضہ کرنا چاہتاہے عظیم جدوجہد کے لیے نکلا ہوں اس سرکار کے خاتمے کے لیے عنقریب اسلام آباد جائیں گے بلاول بھٹو نے اس بیان میں سندھ کے دیوالیہ ہونے کا اعتراف کیا ہے جبکہ جے یو آئی کے آزادی مارچ میں شرکت ناکرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں تاہم نوڈیرو میں انہوں نے فرمایا کہ اس حکومت کے خاتمے کے لیے عنقریب اسلام آباد جائیں گے بلاول بھٹو اس ضمن میں یکسونہیں لگتے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت مخالف مارچ کی آڑ میں بارگینگ کررہے ہیں ایک سانس میں وہ آزادی مارچ کی صرف اخلاقی مدد کرنے کا عندیہ دیتے ہیں تو دوسری سانس میں اسلام آباد جانے کی بات کرتے ہیں پی پی پی کو اس ضمن میں واضح حکمت عملی اپنانی ہوگی ورنہ ان کی رہی سہی ساکھ عوام میں متاثر ہوگی ادھر پی پی پی نے پی ایس 11 سے پارٹی کے دیرینہ رہنماؤں کو نظرانداز کرکے جمیل سومرو کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جمیل سومرو آصف زرداری کے خاص آدمیوں میں شمار کئے جاتے ہیں تاہم لاڑکانہ کی اس نشست پر جی ڈی اے اور اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے سامنے ان کی پوزیشن زیادہ بہتر نہیں ہوگی۔