ایران، روس اور چین کا اتحاد ثلاثہ

September 26, 2019

مشرق وسطیٰ ایک بار پھر نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں پر حالیہ حملے نے خطےمیں صورت حال کو کشیدہ بنادیا ہے۔ امریکی کمپنی جو سعودی عرب سے تیل نکالتی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ چار کنوؤں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے تاحال سعودی عرب نے تیل نکالنے کا کام روکوادیا ہے۔ یمن کے حوثی باغی اس حملے کی ذمے داری قبول کررہے ہیں، مگر امریکی ماہرین اس کو رد کرتے ہیں ،ان کا دعویٰ ہے کہ ایران نے براہ راست ڈرون حملے کئے ہیں، کیونکہ یمن سے اس مقام تک چار سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور ڈرون اتنا فاصلہ طے نہیں کرسکتے۔

تاہم اس نازک مسئلے پر بڑا ابہام پیدا ہوچکا ہے۔ امریکا براہ راست ایران کو ذمے دار قرار دے رہا ہے،جبکہ حوثی باغی مسلسل اس کی ذمے داری قبول کررہے ہیں۔ ایران نے امریکا کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ جبکہ روس کے صدر پیوتن نے امریکا پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایران کو اس لیے ذمے دار قرار دے رہا ہے کہ امریکا نے دو سال قبل سعودی عرب کو پیٹرائیٹ میزائل ڈیفنس سسٹم بہت مہنگے داموں فروخت کیا تھا وہ ناکام ہوچکا ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ ایران کو ذمے دار قرار دے رہاہے، جبکہ یہ ڈرونز یمن ہی سے آئے اور اپنا کام کرگئے۔ اس تمام واقعہ نے سعودی حکمرانوں کی نیندیں اڑادی ہیں اور امریکانے اس موقعے پر مزید امریکی افواج سعودی عرب میں متعین کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے ایک سرکاری بیان میں دھمکی دی ہے کہ ایران پر کسی طرح کا حملہ ہوا تو ایران اس کا پوری قوت سے جواب دے گا اور یہ فُل اسکیل وار ہوگی۔

امریکا نے اس واقعہ کی آڑ لے کر ایران پر مزید اقتصادی اور سیاسی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ خطے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر روس اور چین نے ایران سے اپنے ہر طرح کے تعاون کا اعادہ کیا ہے۔

روس کے ایران سے دیرینہ تعلقات ہیں ۔اُس نے ایران کو انقلاب ایران کے بعد جدید اسلحہ دیا ہے۔ اس کے تجارتی اور سیاسی تعلقات بھی مضبوط رہے ہیں، اس کے پس پشت ایران اور روس کا مشترکہ موقف ہے کہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکا کو محدود رکھا جائے اور اس کو اپنی پالیسیوں کو فروغ دینے سے روکے رکھا جائے۔

چین اور روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کو بھی شامل کیا ہے اور 2006 میں ایران کو تنظیم کا باقاعدہ رکن تسلیم کیا گیا۔ اس کے بعد روس نے ایران کو جدیدطیارے، 300 میزائل ڈیفنس سسٹم ، جدید ہیلی کاپٹر، آرمڈ گاڑیاں اور سامان فروخت کیا۔ چین نے بھی گزشتہ برسوں میں ایران کو خاصی تعداد میں جدید ہتھیار فروخت کئے ہیں۔

ہاس طرح حالیہ جائزوں کے مطابق ایران خطے کی بڑی عسکری طاقت بن چکا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ایران کی افواج کو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک طرف ریگولر افواج اور دوسری طرف انقلابی گارڈ اور مذہبی عسکری گروہ ہیں۔ ریگولر افواج کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

ریزور فوجی ساڑھے تین لاکھ ہیں، انقلابی گارڈ اور دیگر عسکری تنظیموں میں دس لاکھ کے قریب لڑاکا شامل ہیں۔ اس افرادی قوت کے علاوہ جدید لڑاکا طیارے، بحری جہاز، جدید ٹینک، میزائل ڈیفنس سسٹم، بیلسٹک میزائل، کم فاصلے کے میزائل اور دیگر جدید سامان حرب شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران بھی جدید ہتھیار خود تیار کررہا ہے جبکہ ایران کی آبادی آٹھ کروڑ تیس لاکھ سے زائد اور رقبہ سولہ لاکھ چالیس ہزار مربع کلو میٹر کے قریب ہے۔ تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ایران پورے خطے میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔

ایران اور چین کے تعلقات پرانے ہیں، مگر گزشتہ ایک عشرے کے عرصے میں تعلقات میں زیادہ گرمجوشی اور دو طرفہ تعاون سامنے آیا ہے۔ تعلقات میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں تحکمانہ حکومتیں قائم ہیں اور دونوں ممالک اس خطے میں مغرب کی توسیع پسند پالیسیوں کو محدود رکھنا چاہتے ہیں اور مغرب کے استحصالی مفادات کے خلاف ہیں۔ دونوں ممالک مغرب کی بیشتر پالیسیوں کو غیر منصفانہ قراردیتےہیں۔

چین کو زیادہ دلچسپی ایران سے تیل کی خریداری میں رہی ہے۔ ہر چند کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود چین ایرانی تیل کا بڑا برآمدکنندہ ہے۔ چین اپنے آئندہ دس سالہ منصوبے میں ایران سے 400 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک حوالے سے کہا جاتا ہے کہ چین تیل کی خریداری کے لیے ایران کی تیل کی تنصیبات اور بندرگاہ کو جدید اور وسیع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی ایران میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور ہتھیاروں کی فروخت کو خطے کے دیگر ممالک سخت ناپسند کرتے ہیں اور خلیج کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہمیشہ امریکا اور یورپی یونین کی طرف دیکھتے رہے ہیں اور امریکا و دیگر مغربی ممالک کی پالیسی یہی ہے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری اور سیاسی پالیسیوں کو محدود رکھا جائے۔

مشرق وسطیٰ میں شام کی وجہ سے روس کا خطے میں اثر بڑھا اور ایران سے دوستی میں اضافہ ہوا، اسی کی وجہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کو ایران ابتداء ہی سے مدد دے رہا تھا اور بھرپور حمایت کرتا رہا دوسری طرف روس بھی ایسا ہی کچھ چاہتا تھا کیونکہ شام میں بشارالاسد کی وجہ سے روس کا مشرق وسطیٰ میں واحد بحری اڈہ محفوظ تھا اس لیے روس نے بھی اسد کی حکومت کی ہر طرح سے حمایت کی اور شام کی خانہ جنگی وہاں داعش اور اس جیسی دیگر جہادی جماعتوں کا مقابلہ کرنے اور حکومت کی حامی فوجوں کی مدد کرنے کے لیے روس نے بھی شام میں مداخلت شروع کردی اور 2015 میں اس نےلڑاکا طیاروں میں داعش کو نشانہ بنایا جبکہ وہاں امریکی اور یورپی طاقتیں اسد مخالف دھڑوں کی حمایت میں لڑرہی تھیں، مگر روس اور ایران نے بشارالاسد کو تاحال اقتدار میں رکھا ہے جس پر امریکا اور مغرب شدید ناراض ہیں اور ان کا اہم اتحادی اور بشارالاسد کا سب سے بڑا مخالف ملک سعودی عرب بھی پریشان ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطی میں عراق کی حکومت غیر مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ یمن میں حالات انتہائی خراب ہیں، ہزاروں یمنی یا باغی ہلاک ہوچکے ہیں یمن میں حوثی باغیوں کی ایران بھرپور مدد کررہا ہے جبکہ سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور امریکا نے یمن میں عوام پر زمین تنگ کر رکھی ہے۔ شام بہت بڑی تباہی کا شکار ہوا ہے اور تاحال وہاں کہیں کہیں لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ جہادی حزب اللہ کی وجہ سے بے چینی پائی جاتی ہے۔

اسرائیل ایران کے حامی گروہوں پر حملے کرتا رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ نہایت مخدوش حالات سے گزر رہا ہے جبکہ ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کے بیانات جاری رہتے ہیں جن کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی حمایت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ امریکا اور مغرب کے خلیج اور مشرق وسطی میں بڑے مفادات وابستہ ہیں،کیونکہ گزری صدی تک پورا خطہ یورپی نوآبادیات کے قبضے میں رہا اور جب انہیں نام نہاد آزادیاں دی گئیں تب یورپی قوتوں نے اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق اس خطے کو تقسیم کیا۔

ایران، روس اور چین کی دوستی اورمعاہدے ایک فطری اور سیاسی مقاصد کے عین مطابق ہیں ۔ایران اس خطے کا بہت اہم ملک ہے اور دنیا کے تیل کے بڑے ذخیرے کے عین وسط میں واقع ہے۔ ایران کو روس ہتھیاروں کی فروخت کے لیے اہم تصور کرتا ہے، چین ایرانی تیل اور اس کی بندرگاہ کے حوالے سے گہری دلچسپی رکھتا ہے جبکہ ایران کا دونوں ممالک سے مفاد واستہ ہے اور سیاسی طور پر بھی یہ دونوں بڑی طاقتیں امریکا کی حریف اور اہم ہیں۔ اس لیے ایران، روس اور چین کے تعلقات جاری حالات میں ایک دوسرے کے مفادات سے وابستہ ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد بھی رکھتے ہیں۔

ایران اور پڑوسی ملک پاکستان کے ابتداہی سے مثالی تعلقات رہے، البتہ انقلاب ایران کے بعد سیاسی مدوجذر آتے رہے ،اب بھی تعلقات اچھے ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک ایک دوسرے پر پورا اعتماد رکھتے ہیں اور دوطرفہ تعاون فروغ پذیر ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہتی ہے کہ ایران کے اس کے پڑوسی ممالک سے تعلقات میں رخنہ اندازی جاری رکھی جائے، مگر پاکستان اور ایران کے تعلقات کے بیج ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔

سرد و گرم کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی اتار چڑھائو کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات اثرانداز نہ ہوں۔ تاہم ایران، روس اور چین کا اتحاد ثلاثہ کامیابی سے ہمکنار ہے۔