شوہر کی طرف نسبت کا شرعی حکم (دوسرا حصہ)

October 25, 2019

تفہیم المسائل

(گزشتہ سے پیوستہ)

اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں:(۱)ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک صحابیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے ان کی نسبت والد کے بجائے ان کے شوہرعبد اﷲبن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ،توآپ ﷺ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ،اسی کو حدیثِ تقریری کہتے ہیں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :ترجمہ:’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب (رسول اللہ ﷺ کے گھر) آئیں ، وہ آپ ﷺ سے اجازت طلب کرنے لگیں،پس عرض کیاگیا : یارسول اللہﷺ ! یہ زینب ہیں،آپ ﷺ نے پوچھا : کون سی زینب ہیں ، آپ ﷺ کوبتایا گیا :یہ وہ زینب ہیں جو ابن مسعودؓ کی بیوی ہیں،(صحیح بخاری: 1462)‘‘۔

(۲)اُمّ المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازے پر حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا:ترجمہ:’’یہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہؓ ہیں،(صحیح بخاری:5067)‘‘۔(۳ تا۹)اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہراتؓ کی نسبت متعدد بار رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہے:(۳)أَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِ ّ(صحیح بخاری:103،صحیح مسلم:252) ،(۴)عَنْ مَیْمُونَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ (صحیح بخاری:183)،(۵)عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ،(۶)دَخَلْتُ عَلٰی اُمِّ حَبِیبَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ،(۷)عَنْ حَفْصَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ،(۸)أَنَّ صَفِیَۃَبِنتَ حُیِیٍّ زَوْجَ النَّبِیِّ،(۹)ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَۃَ بِنتِ زَمَعَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ.

خلاصۂ کلام یہ کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔البتہ اسلام اور عالم عرب میں آج بھی ’’اُبُوّت‘‘ کی نسبت کا رواج زیادہ ہے ،لیکن شوہر کی طرف نسبت کا جواز موجود ہے اور بعض اوقات ایک نام کی ایک سے زائد خواتین ہوں ،تو امتیاز کے لیے شوہر کا نام لے لیاجاتا ہے ۔