امن و امان کی صورت حال

October 27, 2019

سندھ پولیس کا مجوزہ سیف سٹی منصوبہ، جس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا

کراچی میں پولیس کو کراچی آپریشن کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کے بعد اب اسٹریٹ کرائمزپر قابو پانے میں ناکامی پر سوالات اور تنقید کا سامنا ہے۔پولیس افسران کا کہنا ہے کہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اسٹریٹ کرائمز کے بعد اب گھروں اسپتالوں اور کلینکس پر ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،پی ایس پی اور رینکرز افسران کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی ہے ۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ روز سندھ کابینہ کے منعقدہ اجلاس میں آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی جس سے ایک بار پھر آئی جی اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق چندپولیس اہلکار بھی "شارٹ ٹرم کڈنیپنگ" میں ملوث پائے گئے ہیں جب کہ شہر میں منشیات کی خرید و فروخت پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

رواں برس شہر میں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز سے بزرگ ،خواتین، بچے، صحافی، ڈاکٹرز، وکلاء ،پولیس اہلکار،سیکورٹی اداروں کے اہلکاروںسمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا فرد متاثر ہوا ہے۔سال رواں کے آغاز سے اب تک شہری 24ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں اور1400سے زائد گاڑیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔

اس سال شہر کے مختلف علاقوں میں شہریوں کو 39 ہزار 600 سے زائد موبائل فونز سے محروم کیا گیا۔مختلف واقعات میں تین سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے،بھتہ خوری کی25،اغواء برائے تاوان کی 5 اور بینک ڈکیتی کی3وارداتیں ہوئیں۔ضلع وسطی کے شہریوں کو اس وقت اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔

درجنوں واقعات ایسے بھی ہیں جن میں اسٹریٹ کرمنلز شہریوں کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل اور زخمی بھی کر چکے ہیں۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ لاہور کی طرز پر جب تک شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ پر کام شروع نہیں ہو گا اس وقت تک میگا سٹی میں جرائم کی وارداتوں پر قابو پانا ناممکن ہے۔سندھ پولیس کے متعدد افسران کو پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کا دورہ کروایا گیا تاکہ وہ وہاں کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر سندھ میں بھی اسے نافذ العمل کریں لیکن سندھ حکومت کی جانب سے اب تک سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز نہیں کیا گیا۔

سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان بہتر تعلقات کے دعوے بھی غلط ثابت ہوئے۔وزیراعلی ٰسندھ مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ کلیم امام کے درمیان تناؤکھل کر سامنے آگیا ہے۔سندھ کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سمیت صوبائی وزراء نے آئی جی سندھ سے پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات کیے، جب کہ گٹکے اور منشیات کی روک تھام میں ناکامی پر سخت ناراضی کا اظہار کیاگیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ شہر میں آئس کا نشہ وافر مقدارمیں موجود ہے۔

انہوں نےآئس اور دیگر نشہ آور اشیاء اور اس کی خرید و فروخت کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ کابینہ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سے سوال کیا کہ گٹکے کی کتنی فیکٹریاں آپ نے سیل کی ہیں۔اگر تین ماہ کے دوران کاروائی ہوئی ہے تو باقی چھ ماہ کارروائی کیوں نہیں ہوسکی ؟۔وزیر اعلیٰ نے آئی جی کو گٹکے اور منشیات میں ملوث پولیس افسران کی فہرست فوری طور پر پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ہماری مداخلت کا تاثر غلط ہے ،لیکن مجھےصوبے میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری چاہئے۔

دوسری جانب پی ایس پی افسران اور رینکرز کے درمیان بھی تناؤ موجود ہے۔ایس ایچ اوز کے بعد ڈی ایس پیز کے انٹرویوز کی تاریخ آنے کے بعد متعدد ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز نے یہ سوال کیے کہ اگر ایس ایچ او ،ہیڈ محرر اور ڈی ایس پی ٹیسٹ اور انٹرویو دے کر آئیں گے تو پھر پی ایس پی افسران اے ایس پی،ایس پی،ایس ایس پی،ڈی آئی جی،ایڈیشنل آئی اور آئی جی انٹرویو اور ٹیسٹ کے بغیر کیوں تعینات کیے جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

شاہراہ فیصل پولیس کے 4اہلکاروں کو شہریوں کی ’’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘‘ کے الزام پر گرفتار کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق چاروں اہلکاروں کے خلاف 5متاثرہ نوجوانوں نے ایس ایس پی ایسٹ کو درخواست دی تھی کہ 19ستمبر کو 4اہلکاروں نے انہیں ان کے فلیٹ کی پارکنگ سے حراست میں لیااور گلشن جمال میں واقع ایک خالی پلاٹ میں لے جایا گیا۔ انہوں نے مجموعی طور پران کی جیب سے 30ہزار روپے سے زائد رقم نکالی ۔

ایک اور دوست عمیر کا فون آنے پر اسےبھی فلیٹ کے پاس بلاکراسے بھی مذکورہ پلاٹ میں لے آئے۔مذکورہ اہلکار عمیر کو اے ٹی ایم لے گئے اور اس کے اکاؤنٹ سے 7 ہزار اور پھر 25ہزار نکلوائےگئے۔اانہوں نے پولیس مقابلے میں مارنے کی دھمکی دتے ہوئے انہیں رہا کیا۔ ۔جب قانون کے رکھوالے ہی جرائم میں ملوث ہوجائیں تو صورت حال میں بہتری کیسے ممکن ہے؟

ضلع ویسٹ میں گھروں کے اندر گھس کرڈکیتیوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔ڈکیت گروپ بلدیہ ٹاؤن اور ویسٹ کے دیگر علاقوں میں اب تک متعدد گھروں میں گھس کر لوٹ مار کر چکا ہے۔گزشتہ دنوںماڑی پور کے علاقے جاوید بحریہ سوسائٹی میں مسلح ڈکیت 2 گھروں سے تقریباً 142تولہ سونا ، 81ہزار ریال،ڈالرز ، موبائل فونز،اسلحہ اور دیگر قیمتی سامان لےگئے ۔پولیس کے مطابق ماڑی پور تھانے کی حدود جاوید بحریہ سوسائٹی فیز ٹوگلی نمبر 8مکان نمبر13میں 8 مسلح ملزمان رات پونے تین بجے فروس نامی ٹرانسپورٹر کے گھر میں داخل ہوئے۔

اہلخانہ کے مطابق مسلح ڈکیت گھر کی بیرونی دیوار کودکر اندر داخل ہوئے اور لکڑی کا دروازہ توڑ دیا ،انہوںنے گھر میں موجود تمام افراد کو اسلحے کے زور پر یر غمال بنا لیا اور رسیوں سے باندھ کر ایک کمرے میں بند کر کے گھر سے 42 تولہ سونا،5لاکھ روپے نقد،4موبائل فون لوٹ لیے۔

وہ پونے 3 گھنٹے تک گھر میں میں موجود رہے اورقیمتی اشیاء سمیٹتے ۔مذکورہ ڈاکوٹرانسپورٹر کے گھر میں ڈکیتی کرنے کے بعد سرکاری ریٹائرڈ افسر مقبول شاہ کے مکان نمبر11 میں داخل ہو ئےاور گھر والوں کویرغمال بنانے کے بعد 100تولے سونا،9لاکھ روپے،81000سعودی ریال ،4000امریکن ڈالر،،5موبائل فون ،5دستی گھڑیاںایک تیس بور پستول ،32بور کالائسنس یافتہ ریوالور لوٹ کر فرار ہو گئے ۔

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہناہے کہ شہری اسٹریٹ کرائم کا شکار ہونے کے بعد تھانے میں رپورٹ درج نہیں کرواتے اس لیے پولیس کے پاس ان کا ڈیٹا جمع نہیں ہو پاتا ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے’’ اکٹم سپورٹ سروس ‘‘کو فعال کیا ہے، جس میں اسٹریٹ کرائم کا شکار ہونے والے شہریوں سے خود رابطہ کر کے ان کی معلومات لی جا رہی ہیں۔