مکان یا اسلحہ خانہ....؟

November 03, 2019

پولیس نے ایک مکان پر چھاپہ مار کربھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کرلیا۔اسلحہ کی برآمدگی کے بعد ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ خفیہ ذرائع سے اطلاع ملنے پر اے سیکشن پولیس اسٹیشن کی حددود میں واقع کمیپ نمبر 2 کے گنجان آباد محلے میں پولیس کی بھاری نفری نے محمد یوسف عرف بارودی ولد صفدر یوسف زئی کے مکان پر چھاپہ مارا تو وہاں سے لاکھوں روپے مالیت کا اسلحہ برآمد ہوا جس میں 32 بور کے پانچ ریوالور30 بور کے سات پستول ایم ۔

بی اے5 بور کے دو ہتھیار 22 پوائنٹ کی ایک رائفل44 پوائنٹ کی ایک رائفل، سیون ایم ایم کی پانچ رائفلیں ۔12 بور کی ایک بندوق ۔ڈبل بیرل بارہ بور کی نو بندوقیں ۔بارہ بور کے رپیٹر 57 میگزین اور 1063 گولیاں برآمد کرلیں۔ ایس ایس پی کے مطابق چھاپہ کے وقت یوسف عرف بارودی ہاتھ نہیں لگا ۔ انہوں نے کہا کہ نواب شاہ کی تاریخ میں پولیس کی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے جس میں اتنی بھاری تعداد میں مہلک ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ یوسف زئی جو کہ یوسف بارودی کے نام سے معروف اور متحدہ لندن کا کارکن ہے ،اس کے خلاف مختلف تھانوں میں متعددمقدمات درج ہیں۔

اس پر پہلا مقدمہ 1988 میں اے سیکشن تھانہ میں اور 1992 میں دوسرا مقدمہ بھی اے سیکشن تھانہ میں درج کیا گیا تھا۔ تیسرا مقدمہ 2017 میں بی سیکشن تھانہ میں درج کیا گیا ۔ ایس۔ایس۔پی تنویر حسین تنیو نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ محمد یوسف عرف بارودی کے خلاف بی سیکشن تھانے میں درج کرائے گئے مقدمے میں یہ الزام تھاکہ اس نے تھانے کے مال خانے میں غیر قانونی اسلحہ چھپایا تھا ۔تاہم ان کا کہنا تھاکہ جنرل پرویزمشرف کی جانب سے این آر او دیئے جانے کے باعث دیگر مقدمات کی طرح یوسف بارودی پر قائم مقدمات بھی ختم ہو گئے تھے ۔

ایس ایس پی کا کہناتھا کہ شہر کے گنجان آباد محلےکے گھر میں اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ کن مقاصد کے لئےچھپایا گیا تھا اس کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنادی گئی ہے۔اس کے ممبران میں ڈی ایس پی، سی آئی اے مبین احمد پرھیاڑ، ایس ایچ او اے سیکشن تھانہ رشید احمد میمن ، ایس ایچ اوبی سیکشن تھانہ آصف مغل اور ایس ایچ او ایئرپورٹ تھانہ اویس منگریو شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جی آئی ٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ مذکورہ اسلحہ کب اورکہاں سے آیا،پولیس کو بتائے بغیر اور این او سی لئے بغیر یہ اسلحہ گھر میں کیوں چھپا کررکھا گیا اوریہ کن لوگوں کو فروخت کیا جانا تھا۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کاکہنا تھا کہ چھاپہ کے وقت یوسف بارودی غائب ہو گیاتھا اوروہ اب تک مفرور ہے۔

دوسری جانب مذکورہ واقعہ کے کردار محمد یوسف ولد صفدر یوسف زئی نے سوشل میڈیا پر اپنا بیان وائرل کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کیمپ نمبر 2 میں گھر کے سامنے اسلحہ کی دوکان ہے متعلقہ محکمے سے منظور شدہ ہے۔ پولیس نے دوکان کے تالے توڑ کرمذکورہ اسلحہ قبضہ میں لیا ہے۔اس نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلحہ کی دوکان کا ڈیلرشپ لائسنس اور اندراج رجسٹربھی پولیس اسلحہ کے ہمراہ اپنے ساتھ لے گئی ہے۔یوسف بارودی کا کہنا ہے کہ پولس نے جو اسلحہ اپنے قبضے میں لیا ہےوہ تمام قانونی ہے۔ اس نے ایم کیوایم لندن سے اپنی وابستگی کے جواب میں کہا کہ اس نے 2016 میں ڈپٹی کمشنر شہید بے نظیر آباد کو ایک حلف نامہ دیا تھا جس میں ایم کیوایم سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا تھا۔

یوسف بارودی کے سوشل میڈیا بیان پر ایس ایس پی تنویر حسین تنیونے کہا کہ اگر یوسف بارودی کا یہ بیان کہ اسلحہ قانونی ہے تو اب تک وہ کسی عدالت میں کیوں نہیں گیا اور قانونی اسلحہ کی کہاں سے خریداری کی گئی ہے، اس کا ریکارڈ پولیس کو کیوں نہیں دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ جے آئی ٹی کو دس یوم میں اس کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں مزید کاروائی کی جائے گی ۔تاہم یہ امر بھی قابل ذ کر ہیں کہ اسلحہ سازی کے کارخانے نہ تو سندھ میں ہیں، نہ ہی پنجاب اور نہ بلوچستان میں ۔ خیبرپختونخواہ میں بھی قبائلی علاقوں اور وزیرستان کے ان علاقوں میں جوکہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحق ہیں وہاں ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔

وزیرستان سے پشاور آتے ہوئے ہرچند سو گزکے فاصلے پر پولیس کی چوکیاں واقع ہیں، جب کہ پشاور سے نواب شاہ تک سیکڑوں چوکیاں راستے میں پڑتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ اسلحہ کس طرح آخری اسٹیشن کراچی اور اندرون سندھ پہنچ جاتا ہے۔ اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحقیقات کرنا ہوگی اور اس قبیح کاروبار کرنے والوں کو قانون کے شکنجہ میں کسنا اور ان کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جوکہ موت کہ سوداگروں کے ساتھ مل کر اسلحہ کا غیر قانونی کاروبار کررہے ہیں اور ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ پھیلا کر امن عامہ کی صورت حال مخدوش بنا رہےہیں۔