جنوبی پنجاب میں سیاسی خلا پر کرنے کیلئے بلاول بھٹو سرگرم

November 07, 2019

گزشتہ ہفتہ سانحہ تیز گام نے پورے ملک کو افسردہ کردیا ، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں چلتی ٹرین کے اندر آگ بھڑک اٹھی اور اس نے آناً فاناً تین بڑی بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ چلتی ٹرین کی وجہ سے مسافروں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا اور جنہوں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا کر جانیں بچانے کی کوشش کی وہ بھی یا تو بری طرح زخمی ہوئے یا زندگی کی بازی ہار گئے۔

اس سانحہ کی وجہ سے ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ پورے جنوبی پنجاب میں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں صرف نشتر ہسپتال ملتان میں 67 بیڈز کا ایک برن یونٹ ہے جو ایسے کسی بھی سانحے کے موقع پر مریضوں کو ریلیف دینے سے قاصر نظر آتا ہے ، رحیم یار خان کے قریب جہاں یہ سانحہ رونما ہوا شیخ زید ہسپتال اور قریب ترین بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں بھی ’’ برن یونٹ ‘‘ کی سہولت نہیں تھی جس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا اور زخمیوں کے علاج میں تاخیر کی گئی اور وہ اپنے سوختہ جسموں کے ساتھ تڑپتے بلکتے رہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی صورتحال رونما ہوئی ہے ۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے احمد پور شرقیہ میں تیل کا ٹینکر الٹنے کی وجہ سے جو تباہی ہوئی تھی اس میں جلنے والوں کے لئے بھی ’’ برن یونٹ ‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے بروقت علاج ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ اس وقت وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ بڑے ہسپتالوں میں ’’ برن یونٹ ‘‘ قائم کئے جائیں گے تاکہ آئندہ کسی ایسے واقعہ کی وجہ سے زخمی ہونے والے علاج معالجہ سے محروم نہ رہے، مگر رات گئی ، بات گئی کے مصداق اس شعبہ میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی اور یہ نیا سانحہ ایک اور درد کی لکیر چھوڑ گیا جسے شاید اگلے سانحہ تک پیٹا جاتا رہے اور اس شعبہ میں جو کام کرنے کی ضرورت ہے اسے وعدہ فردا کی طرح ٹالا جاتا رہے ۔

اگرچہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس حادثہ کی جگہ کا دورہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ رحیم یار خان اور بہاولپور میں ’’برن یونٹ‘‘ قائم کئے جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ ان برن یونٹس کے قیام میں کتنا عرصہ درکار ہوگا ؟ یہ تو فوری نوعیت کا کام ہے اور حکومت کو بجٹ مختص کرکے اس کا فوری آغاز کرنا چاہیے۔ ملتان میں نشتر ٹو کا جو منصوبہ بن رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں کم از کم 300 بیڈز کا ’’ برن یونٹ ‘‘ بنایا جائے تاکہ جنوبی پنجاب کے لئے اس طرح کی ایک بڑی سہولت میسر آسکے۔

جب بلاول بھٹو زرداری تیز گام حادثہ کے زخمیوں کی عیادت کے لئے بہاولپور وکٹوریہ پہنچے تو اکثر زخمی مریضوں نے ان سے یہی التجا کی کہ اس علاقہ میں جلنے سے زخمی ہونے والوں کے لئے ہسپتال قائم کئے جائیں ، مریضوں کے لواحقین نے بھی بلاول بھٹو کے سامنے یہی مطالبہ رکھا انہیں یہ تو معلوم نہیں تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اس ضمن میں صرف آواز ہی اٹھا سکتے ہیں عملی کام تو پنجاب حکومت کا ہے ۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے اس علاقے کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ، کئی بار انتظامیہ کو یہ الرٹ جاری کیا گیا کہ وزیر اعظم دورہ کرسکتے ہیں مگر شاید اسلام آباد میں دھرنے نے وزیر اعظم کو یہاں آنے کی مہلت نہیں دی۔ شیخ رشید احمد نے اگرچہ جائے حادثہ، رحیم یار خان، بہاولپور اور ملتان کا دورہ کیا مگر وہ زیادہ تر عوام اور میڈیا کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے ، ان سے جب مستعفی ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اتوار کو پریس کانفرنس میں اس کا جواب دیں گے مگر اس پریس کانفرنس کی نوبت نہیں آئی، یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ اس حادثہ کی وجہ سے سلنڈر پھٹنے کو قرار دیا گیا مگر کچھ عینی شاہد نے اسے شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ شارٹ سرکٹ سے آگ پہلے لگی اور سلنڈر بعد میں پھٹا۔

اگرچہ وزیر اعظم نے اس واقعہ کی فوری اور جامع تحقیقات کا حکم دیا مگر نہ تو اس حوالے سے کوئی کمیٹی بنائی گئی اور نہ ہی اسے ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔بلاول بھٹو زرداری دھرنے میں اپنی شرکت کے بعد جنوبی پنجاب آگئے ۔ اگرچہ تیز گام سانحہ کی وجہ سے رحیم یار خان کا جلسہ ملتوی کردیا گیا تاہم بلاول بھٹو زرداری نے اپنا جنوبی پنجاب کا دورہ منسوخ نہیں کیا۔

شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوکہ وہ جنوبی پنجاب کو اس خاص موقع پر اپنا ہدف بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خلا جو مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی عدم فعالت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرسکیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بڑی خوبصورتی سے آزادی مارچ میں شرکت بھی کی ہے اور یہ تاثر بھی نہیں دیا کہ وہ اداروں سے تصادم میں آخری حد تک جانا چاہتے ہیں ، دھرنے کے معاملے میں بھی انہوں نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا اور ’’ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو ناراض بھی نہیں کیا اور دھرنے کی حمایت بھی نہیں کی۔

انہوں نے جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے معاملے کواگلے مرحلہ تک ٹال دیا اور کہا کہ اگر حکومت نے اپنی سمت درست نہ کی ، نیب کے ذریعے انتقامی کارروائیاں جاری رکھیں اور الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں نہ لیا تو پھر جمہوری قوتیں کسی بھی حد تک جانے میں حق بجانب ہوں گی ۔

غور کیا جائے تو بلاول بھٹو زرداری بڑی مہارت سے اپنی سیاسی اننگز کھیل رہے ہیں ، انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہوکر جو تقریر کی اسے شہباز شریف کی تقریر سے بدر جہا بہتر قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس تقریر میں سیاسی حوالے سے ایک واضح اور جاندار موقف اختیار کیا گیا ، یوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بلاول بھٹو اس وقت سیاسی افق پر بڑی چابک دستی سے اپنا تشخص منوا رہے ہیں اور ایسی باتوں سے گریز پا ہیں جو انہیں سیاسی طور پر جذباتی ، نابالغ اور ناپختہ کار ثابت کریں۔