آزادی مارچ کے بعد ’’ان ہاؤس تبدیلی‘‘ کا مرحلہ پیش آسکتا ہے

November 07, 2019

جے یو آئی ف آزادی مارچ کے شرکاء کی جدوجہد بارھویں روز میں داخل ہو گئ ہے حکومت اپوزیشن ڈیڈ لاک برقرار ہے، سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین ااور سپیکر پنجاب اسمبلی جوہدری پرویز الہی بھی مولانا فضل الرحمن سے دو ملاقاتیں کر چکے ہیں وزیر اعظم کے استعفے اور فوری قومی انتخابات سخت مطالبات ،درمیانی راستے کی تلاش جاری رکھنے پر اتفاق پایا جاتا ہے ،شدید بارش نے شرکاء کا مزہ دوبالا کر دیا تین بابے حرکت قلب کا نشانہ بن چکے ہیں۔

کراچی سے27 اکتوبر کو چلنے والا جمعیت علمائے اسلام(ف) کا آزادی مارچ جہاں حکومت اور اپوزیشن میں ورکنگ ریلیشن شروع کرنے کیلئے مل بیٹھنے کا موجب بنا رہا وہاں اداروں کی غیر جابنداری کی یقین دہانی بھی سامنے آگئی اور سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کے اندر کرنے کی روایت ڈالنے پر اتفاق کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کرفیو کا نفاذ کے تین ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر پاکستان میں اپوزیشن اور حکومت میں ورکنگ ریلیشن نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بحیثیت عالمی سطح پر اٹھانے کی بجائے صرف حکومت کا فرض سمجھ لیا گیا ہے۔

جس کی وجہ سے آزادکشمیر کا وزیراعظم راجہ فاروق حیدر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ان سمیت آزادکشمیر کے تمام باسیوں کو اپنے کشمیری بھائیوں کے گرد’’لپٹا‘‘ غلامی کا طوق کاٹنے کیلئے بندوق اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ پہلے27 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے کا شیڈول طے کیا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قبضے کی سالگرہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تو مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کی وفاقی دارالحکومت پہنچنے کی تاریخ تبدیل کر کے31مارچ کر دی ۔

جس سے اپوزیشن کی9 جماعتوں کے قائدین کے خطاب کا اعلان کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر کو کراچی سے چلے اور1445کلو میٹر کا سفر مکمل کر کے راولپنڈی کی تحصیل گو جر خان میں مقیم ہوگئے۔30اکتوبر کی رات رحیم یار خان کے قریب مسافر ٹرین تیز گام کے تین ڈبوں میں آتشزدگی میں 75افراد کی شہادت اور درجنوں کے زخمی ہونے پر31اکتوبر اسلام آباد میں آزادی مارچ کا جلسہ موخر کر دیا گیا مگر اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جلسہ موخر کرنے کا فیصلہ بروقت تمام حلیفوں تک نہ پہنچ سکا اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جلسہ موخر کرنے کا اعلان سے یہ تاثر ابھرا کہ ن لیگ نے آزادی مارچ کے خلاف سازش کردی ہے مگر رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی نے بروقت وضاحت کر کے صورتحال کو مخدوش ہونے سے بچا لیا۔

مولانا فضل الرحمان کی پنڈال میں آمد سے قبل ہی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کردیا ۔ مولانا فضل الرحمان علی الصبح پنڈال میں پہنچے اور نماز جمعہ کے بعد جلسے کے کا اعلان کیا نماز جمعہ کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ طلب کیا اور کہا کہ ادارے اگر10فیصد بھی ان کی حکومت کا ساتھ دیتےتو نتائج مزید بہتر ہوتے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو دو دن کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے خبردار کیا کہ استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں انہیں ان کے گھر سے گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے جس پر حکومت نے معاملے سے قانونی انداز میں نمٹنے کیلئے ڈاکٹر بابر اعوان سے مشاورت کی اور غداری کا مقدمہ بنانے کا اعلان کیا تاہم سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اتوار کی رات مصالحتی عزم لے کر آگے بڑھے اور پیر کی رات مولانا سے ملاقات کی اپوزیشن کی9 جماعتوں نے پیر کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے حکمت عملی طے کی جس میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے غیر جمہوری انداز میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کے ذریعے حکومت ختم کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔

اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد رہبر کمیٹی اور حکومتی کمیٹی میں مذاکرات کا آغاز ہوا مگر وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر پہلے روز ہی بات آگے نہ بڑھ سکی۔ حکومتی کمیٹی کے چیئرمین وزیر دفاع پرویز خٹک نے جے یو آئی(ف) کی طرف سے کئے گئے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کئے جانے کی تعریف کی۔ دونوں میں طے پایا کہ فریقین منگل کو دوبارہ ملیں گے۔ پیر کی رات ہی سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اس ملاقات میں رہبر کمیٹی کےسربراہ اکرم درانی اور مولانا عطا الرحمان بھی شریک تھے۔ اس ملاقات میں نئ سیاسی صف بندی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان اپنے والد محترم مولانا مفتی محمود کی طرح اپوزیشن کے9 رکنی اتحاد کی قیادت کررہے ہیں۔

مولانا مفتی محمود نے 1973کے آئین، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف نظام مفطفیؐ کے نفاذ کیلئے تحریک کی قیادت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمان بھی نفاذ الاسلام کے داعی ہیں اور ان کی جماعت چاروں صوبوں میں اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے وزیراعظم ہائوس سے عمران خان کو گرفتار کرنے کے اعلان پر حکومتی وزراء نے معاملے کو بدمزدگی کی طرف دھکیل دیا اور تو اور وزیراعظم نےگلگت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معاملہ فہمی پر توجہ نہ دی جس سے بات بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہوا تاہم پیر کو کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی صورتحال کو پارلیمنٹ کے اندر سیاسی انداز میں حل کرنے اور انتشار سے گریز کا مشورہ دیا گیا۔ وزیراعظم نے بھی ایجوکیشن کی ترقی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پر گفتگو سے گریز کر کے ورکنگ ریلیشن کی بنیاد رکھ دی۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے احتجاج کر کے استعفیٰ مانگنا ایک غیر سیاسی فعل ہے جسے نہ پہلے تسلیم کیا گیا نہ آئندہ تسلیم کیا جانا چاہئے۔ وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد پر ہی عمل کیا جانا چاہئے۔ نیت نیک ہو تو محاز آرائی سے بچ کر وطن عزیز کی بہتری پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ فریقین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن پہلے الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل کریں۔ انتخابات کو محفوظ بنانے کیلئے اصلاحات کریں اور نئے قوانین بنائیں2018انتخابی دھاندلی الزامات پر پارلیمانی کمیشن بنانے کیلئے دونوں طرف سے نام لئے جائیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو مولانا فضل الرحمان نے کمبخت قرار دیا جس نے نہ صرف پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) نے یوں تو ابتداء ہی سے انتخابی دھاندلی کے خلاف اقدام کے لئے مولانا کے موقف کی تائید نہیں کی مولانا تو پہلے دن سے ہی یہ منتخب ارکان کے حلف اٹھانے کے خلاف تھے۔ عمران خان کی حکومت کے قیام کے سلسلے میں مولانا کا موقف ہے کہ چودہ ماہ کے اقتدار میں عمران خان سمیت ان کی پوری ٹیم ناتجربہ کار اور نکمی ثابت ہوئی ہے صرف بیان اور ٹوئیٹر سے کام چلانے میں مصروف ہے۔سیاسی جماعتوں کو آئین کا پابند بنانے کیلئے قومی اداروں کو ازخود بھی آئین کی بالادستی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔