علامہ اقبال کی نظموں میں اخلاقی سبق

November 09, 2019

عثمان میر

پیارے ساتھیو! جیسا کہپ کو معلوم ہے کہ ہمارے قومی شاعرعلا مہ اقبال ہیں۔ ان کی آفا قی شاعری اگر ایک طر ف انفرادی کر دار کے تعمیر و تشکیل پر زور دیتی ہے تو دوسری طرف قوم کی تقد یر کو بدلنے کے لیے جدوجہد پر آمادہ کر تی ہےتو ساتھ ہی انہوں نے بچوں کے حسا س ذہن کو بھی نہایت دل نشین پیرا ئے میں مخاطب کیا ۔

بچوں کے لیے لکھے گئے کلام میں آہنگ بھی ہے اور اس میں بنیادی اخلا قی تصورات کو بھی سادگی اور خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔علا مہ اقبال کی لکھی گئی بچوں کی نظموں میں احترام انسانیت ، خدمت خلق، بھلائی و خیر خواہی وقت کی قدر ، خوداری اور سیدھی راہ پر چلنے کا درس جا بجا ملتا ہے۔ ان نظموں میں سرفہرست ’’بچے کی دعا‘‘ہے۔ یہ بچوں میں بے حد مقبول نظم ہے اور ایک عرصے سے اسکولوں میں صبح اسمبلی میںپڑھی جاتی ہے۔

اس میں علا مہ اقبال نے دعا کی شکل میں وہ تمام اخلا قی صفا ت طلب کی ہیں جن سے ہر بچے کو چھوٹی عمر سے متصف ہو نا چاہیے۔ علم سے محبت، وطن کی خد مت ،بڑوں کا احترام اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد کرنا وہ اوصاف حمید ہ ہیں جن کو اگر طالب علمی کے زما نے ہی سے اپنا لیا جائے تو یہ تا حیا ت کام آتے ہیں ۔ اس نظم کا آخری شعر ہے

میرے اللہ ! برائی سے بچا نا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلا نا مجھ کو

نظم ’’ہمدردی کا تو مضمون ہی اول تا آخرمصیبت کے وقت دوسروں کے کام آنا ہے۔ نیز اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ صلاحیتوں کو انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف کر نے کا پیغام ملتا ہے۔ اس نظم میں ایک بلبل سارا دن اڑنے اور دانہ چگنے میں مصروف رہتا ہے۔ اتنے میں شام ہو جاتی ہے اورا ندھیر اچھا جا نے کی وجہ سے واپسی کی راہم گم کر بیٹھتا ہے۔ اسی پر یشانی میں وہ شاخ پر بیٹھا ہو تا ہے کہ ایک جگنو اس کی اداسی کا سبب جان کر اپنی خد ما ت پیش کر تا ہے۔

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگر چہ میںذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کر وں گا

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنایا

اس طرح اللہ تعالیٰ نے جگنو کو چمکنے کی جو صلاحیت دی ہے اس کی روشنی میں وہ بلبل کو اس آشیانے تک پہنچا دیتا ہے۔ اس نظم کا آخری شعر ہے:

ہیں لو گ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

نظم ایک پہاڑ اور گلہری میں علا مہ اقبال ؒ پہاڑ اور گلہری کے درمیان مکا لمے کے ذریعے سے غرور اور تکبر سے بچنے کا درس دیتے ہیں۔ اس نظم میں پہاڑ متکبر انہ انداز میں گلہری کو مخاطب کر تے ہوئے کہتا ہے

تری بساط ہے کیا میر ی شان ے آگے

زمین ہے پست میری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہےنصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں ، جا نور غریب کہاں

اس کے جواب میں گلہری کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتوں سے نواز ا ہے اور یہ اس کی حکمت ہے کہ کسی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا بنا دیا ہے اور اس پر گھمنڈ کر نا ٹھیک نہیں ہے

کہا یہ سن کر گلہری نے منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا

نہیں ہے تو بھی تو آخر مر ی طرح چھوٹا

کوئی بڑا کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے ۔غرور اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔ بچے معاشرتی اونچ نیچ سے نا بلد ہو تے ہیں اس وجہ سے بسا اوقات وہ اپنے ہمجولیوں کے سامنے کسی فطری بر تری پر اتر انا شروع کر دیتے ہیں اس نظم اس خا می کو دور کر نے کا درس ملتا ہے۔ غرض یہ کہ شاعر مشر ق علا مہ اقبال نے ،جہاں بڑوں ، نو جوانوں اور خوا تین کو مخا طب کر تے انہیں ان کی اصل منزل و مقام سے آشنا کیا ہے وہیں بچوں اور نسل نو کو بھی وہ قدم قدم پر مخاطب کر تے ان کی صحیح رہنمائی کر تے نظر آتے ہیں۔