سر رہ گزر

November 10, 2019

پروفیسر سید اسرار بخاری


اور بھی غم ہیں سیاست کے سوا


بڑی کوشش کی، غور و فکر کے گھوڑے دوڑائے کہ کہیں سے زندگی کا کوئی غیرسیاسی غم ڈھونڈ لائیں پھر اس پر کچھ اس طرح اظہارِ خیال کریں کہ سیاست کو کانوں کان خبر نہ ہو، نہ ہی اس کا ذکر تک درمیان میں آئے، مگر کیا کیجئے کہ غیرسیاسی غم بھی سیاست کی پیداوار نکلے۔ ایک دوست سے پوچھا یار کوئی جھوٹا سچا عشق کیا ہو تو اس کا ہی احوال سنا دو تاکہ کچھ تو سیاسی تھکن دور ہو مگر اس نے بھی یہ کہہ کر مایوس کیا کہ اس کو 71میں ایک ایم پی اے کے ہاں اچانک عشق ہو گیا، عشق کو مشرقی انداز میں براستہ والدہ محترمہ آگے بڑھایا اور بات کچھ بن ہی گئی، منگنی میں ایسی سیاسی مینگنیاں پڑیں کہ سارا عشق سیاست سیاست ہو گیا، حسن کی اقسام و اطوار پر لکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ حسن بہ اندازِ سیاست بہت دلکش ہوتا ہے، کچھ پیسے بچا کے رکھے تھے خیال آیا کہ اپنی پسند کی شاپنگ کبھی نہیں کی اور یہ خالص غیرسیاسی شوق ہے کیوں نہ پورا کر لیا جائے اور برزخ میں یاد کرنے کو کچھ اچھی یادیں ہی لے جائیں۔ برینڈڈ کپڑوں کا بڑا چرچا ہے کیوں نہ ایک ایسا لباس خریدا جائے۔ جوڑا پسند کر لیا، قیمت پوچھی تو ساری جمع پونجی ہل کر رہ گئی، رعایت کی درخواست کی، دکاندار نے سیاسی حالات کا پنڈورا باکس کھول دیا، کہنے لگا جب سے تبدیلی آئی ہے سب کچھ بدل گیا اگر آپ تبدیلی سے پہلے آتے تو یہی لباس آدھی قیمت میں دے دیتا مگر اب ممکن نہیں، میں نے یہ کہہ کر سوٹ رکھ دیا کہ چلو میں کسی غیرسیاسی دکان سے غیرسیاسی لباس خرید لیتا ہوں وہاں بھی دو گاہک آپس میں سیاسی بحث کررہے تھے اور وہاں سے بھی دوڑ لگادی، پھر خیال آیا کہ نائی کی دکان میں لکھا ہوتا ہے یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے اور شیو بنوانے ایک نائی کی دکان میں گھس گیا، اس سے کٹ لگ گیا میں نے شکایتِ درد کی تو اس نے کہا معاف کرنا میرا دھیان دھرنے کی طرف چلا گیا تھا۔


٭٭٭


رہ گئی استادی، استاد نہ رہے


جب اخلاقی زوال ہو تو دیگر سارے زوال بھی آگھیرتے ہیں، غضب خدا کا کوئی شیطانی فنکاری دکھائے تو اسے کہا جاتا ہے یار! تم تو بڑے استاد نکلے، چلتے چلتے یہ عرض کردیں کہ لفظ ’’استاذ‘‘ ہوتا ہے ایسا نہ ہوتا تو اس کی جمع ’’اساتذہ‘‘ نہ ہوتی، الغرض استاد کے آخر میں حرف دال نہیں ذال ہوتا ہے، اگر اسکولوں میں ٹیچرز کامل ہوتے تو اس ملک کے چوباروں میں گلی گلی اکیڈیمیاں نہ کھلتیں۔ شاہ عالمی کے ایک دکاندار نے ہمارے پڑوس میں ایک مکان کو دن کے وقت اسکول اور رات کو اکیڈمی بنا دیا ہے، محکمہ تعلیم کی کارکردگی اس قدر اعلیٰ ہے کہ تعلیم عام ہو نہ ہو تعلیمی دکانیں عام ہیں۔ علم تو کیا غریب کے بچوں کو ان دکانوں میں دھکے ملتے ہیں، فیسیں آسمان سے اور تعلیم پاتال سے باتیں کرتی ہے، ایک اسکول کا افتتاح ہورہا تھا، اس کے دروازے پر مہمانوں کے لئے لکھا تھا "WELL COME" اس سے اندازہ لگائیں کہ جب یہ اسکول چل نکلے گا تو بچوں کو کیا سکھا کر نکالے گا۔ ان دنوں غلط تلفظ عام ہے، یہ بھی ہمارے ان چوبارہ اسکولوں، اکیڈیمیوں کی دین ہے۔ عَلامہ اقبال پر پروگرام کرنے والی ایک خاتون نے جب بیسیوں بار عِلامہ کو علامہ کہا تو ہم پریشان ہو گئے کہ اب اس کا ’’اُلاما‘‘ کسے دیں، یقین جانیں آج سے تین دہائیاں پہلے کا میٹرک پاس، آج کے ایم اے پاس کو پڑھا سکتا تھا، تعلیم عام کرنا تو کجا جو تعلیم دی وہ بھی ناقص اس لئے کہ استاذ کامل نہیں اور بعد میں یہی کاملوں کا رہنما بھی بن جاتا ہے۔ ایک سی ایس پی افسر سے گھنٹہ بھر گفتگو کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ لوجی سپیرئیر سروسز بھی سپیرئیر نہ رہیں، ہم شاید من حیث القوم نااہل ہیں اس لئے نالائق ترکھان کی طرح اپنے اوزاروں سے لڑتے ہیں اور یہ لڑائی بڑھتی بڑھتی خود کشی میں بدل جاتی ہے۔


٭٭٭


نرخ اور بڑھائو، بڑی ارزانی ہے


یہ بڑی خوش آئند کہانی ہے کہ 22کروڑ عوام کی کس قدر ’’خوشگوار‘‘ زندگانی ہے، ہر شے 100کی گاہگ دھیلے کا، حال کیا ہوگا پھر میلے کا، ہمارا رب کوئی غیر شرعی کام نہیں کرتا حالانکہ وہ کسی شریعت کا پابند نہیں اور ہم جو پابند ہیں مادر پدر آزاد ہیں، کہلاتے اہلِ شریعت ہیں مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے طریقے غیر شرعی اپناتے اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کلمہ پڑھ کر بھی کلمہ پڑھنے والوں کو اذیت دینا جائز سمجھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت مہنگائی ہے مگر اس کی آڑ لے کر جو اضافہ ہم کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اگر یہ رسم چلی ہے کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے تو کیا ہم سب اس رسم کو نبھانے کے پابند ہیں، ہماری باتوں میں بھی مہنگائی کی رفتار سے مبالغہ آرائی بڑھ رہی ہے، ہر بات کو کیوں بریکنگ نیوز بناتے ہیں، یوں لگتا ہے ہر شخص ایک چینل ہے، بات ایک اور سادہ تجزئیے ہزار، گویا جسمانی مشینری نے الیکٹرونک مشینری کو بھی کرپٹ کردیا ہے، ہماری حکومتوں کے کام اچھے مگر ترجیحات سراسر غلط، اس وقت ضرورت ہے کہ ہر کام کو ملتوی کرکے مہنگائی پر قابو پائیں اور اگر نہیں پا سکتے تو حقِ حکمرانی فوت ہو جاتا ہے، بدقسمتی سے یہاں اکثریت غریبوں کی اور اقلیت امیروں کی ہے مگر پھر بھی غریبوں کو اقلیت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے عظیم نبی اکرمﷺ کا ایک بڑا قول ہے ’’خدشہ ہے کہیں محرومی کفر میں نہ بدل جائے‘‘ آج اسٹریٹ کرائم نے جو ہولناک صورت اختیار کر لی ہے یہ دولت کی غلط تقسیم اور محرومی کے باعث ہے، وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنائیں ان کے کئی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔


٭٭٭


’’دھرنا دھرنا لوکی آکھن‘‘


«پارلیمنٹ، دوسرے دن بھی ہنگامہ۔


گویا پارلیمنٹ کو بھی ہائیڈ پارک بنادیا\۔


«فضل الرحمٰن، وزراء خالی ہاتھ نہیں استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں۔


یہ تو بتایا نہیں مذاکرات کہاں رکھ کر آئیں۔


«بلاول ہم بھی دھرنا سیاست اختیار کرینگے۔


پی پی کی آئیڈیالوجی کون اختیار کرے گا۔


«میرے دل میں اکثر یہ خیال آتا ہے۔


کیوں نہ دھرنوں پہ لگادی جائے پابندی


سیاست اور دیگر اختلافات سے ہٹ کر قوم نواز شریف کی صحت یابی کے لئے دعا کریں، حکومت ان کے لئے علاج کے سارے دروازے کھول دے۔