مہنگائی کے عذاب نے عوام کو بے بس کردیا

November 14, 2019

وطن عزیز کی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی دھرنے اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صحت کی تشویشناک صورتحال نے قومی سطح پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت ان دونوں معاملات میں گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کے حصار میں مبتلا نظر آ رہی ہے۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقوں میں جو بے چینی اور اضطراب اب دکھائی دے رہا ہے وہ اس سے قبل محسوس نہیں کیا جا رہا تھا۔

حکومتی وزراء کے اس ماحول میں متضاد اور متنازع بیانات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ مستقبل کے حوالہ سے بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔آزادی مارچ سے قبل ’’مزاحیہ انداز ‘‘ اختیار کرنے والے حکومتی ترجمانوں کو اس بات کا خیال ہی نہ تھا کہ انہیں بعدازں حکومت کی طرف سے ’’مذاکراتی ٹیم‘‘ بھی تشکیل دینی پڑے گی۔

اب تک ہونے والے مذاکرات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومتی ٹیم کے سربراہ اور ارکان میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی سنجیدہ مرحلہ طے نہیں ہو سکا۔مولانا فضل الرحمن اور چودھری برادران کے درمیان ہونے والی ’’خوشگوار ملاقاتوں‘‘ کے اثرات کی صورتحال کو بعض حکومتی وزراء کے ناعاقبت اندیش رویوں نے بھی رکاوٹوں کی صورت فراہم کی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے جارحانہ طرز عمل اور ناقص سیاسی منصوبہ بندی نے ہی اپوزیشن اور مولانا فضل الرحمن کو احتجاج اور دھرنے پر مجبور کیا ہے۔اس احتجاج کے آئندہ کے لائحہ عمل کا انحصار بھی حکومت کی طرف سے اختیار کئے جانے والے رویے پر ہوگا۔

وفاقی دارالحکومت میں پارلیمینٹ کے اجلاس سے قبل ہی یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ حکومت صدارتی آرڈی نینسوں کے ذریعے قانون سازی کر رہی ہے لیکن پارلیمینٹ کے اجلاس کے دوران ایک گھنٹے میں کی جانے والی ریکارڈ قانون سازی نے تو حکومت کے جمہوری دعوئوں کی یکسر نفی کر دی ہے ۔اپوزیشن کے رہنما خواجہ آصف نے تو اسے پارلیمینٹ کے ادارے کی توہین قرار دیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خاں منصوری کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد بھی اسی شدید ردعمل کی کڑی ہے جو اپوزیشن ارکان نے محسوس کی ہے۔

یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا نتیجہ کچھ بھی نکلے تاہم اپوزیشن نے حکومت کو باور کرایا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے قواعد و ضوابط کے برعکس اقدام اٹھانے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے جو کہ سراسر حکومت کا ایک آمرانہ فعل ہے ۔

وفاقی دارالحکومت میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا بیرون ملک رقوم بھجوانے کے حوالہ سے قائمہ کمیٹی کو دیئے جانے والا بیان بھی سیاسی حلقوں میں گردش کر رہا ہے کہ جب چیئرمین ایف بی آر اس معاملے کو قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں تو اپوزیشن کے رہنمائوں پر جو ریفرنس منی لانڈرنگ کے حوالہ سے دائر کئے گئے ہیں اور ان کو ایسے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے تو پھر قومی احتساب بیورو کے پاس ان مقدمات کا کیا جواز رہ جاتا ہے ؟

حکومتی کارکردگی کے حوالہ سے بھی عوام سخت نالاں ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے ان کی زندگی عذاب میں مبتلا ہے اور حکومت کی معاشی ٹیم عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ان کی راہ میں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے اہداف کی وجہ سے قدم قدم پر دشواریاں کھڑی کر رہی ہے۔

بجلی اور گیس کے بلوں نے ہی ’’مڈل کلاس‘‘ کا جینادوبھر کر رکھا ہے اب پھر بین الاقوامی اداروں کے دبائو پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جو عوام کے لئے ایک بم گرنے سے کم نہ ہے۔ اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں جس بے دردی سے اضافہ کیا گیا ہے اس نے بھی عوام کے لئے علاج معالجہ کی سہولیات کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں سے مفت ٹیسٹ کی سہولت ختم کر دینے سے بھی عوام کو مزید دشواریوں کا سامنا ہے ۔

خوردنی اور اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ سبزیوں کی قیمتوں کی صورتحال سے بھی عوام خوف میں مبتلا ہیں۔کھانے پینے کی ایسی کوئی چیز نہیں جس کی ایک سال میں قیمت دوگنی سے نہ بڑھ گئی ہو۔ ایسی کربناک کیفیت سے عوام بے کسی اور بے بسی کی صورتحال میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔حکومت کی طرف سے صرف زبانی دعوے اور فرضی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اس معاملے میں جتنی بھی ہدایات دی گئی ہیں وہ سب بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔صوبے کی سطح پر بنائی جانے والی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے بھی کوئی اثرات سامنے نہیں آ رہے بلکہ دن بدن عوام میں بداعتمادی کی فضاء پیدا ہو رہی ہے۔ نابینا افراد بھی ایک عرصہ سے اپنے مطالبات کے لئے مال روڈ پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔

اگر اعلیٰ عدالتی احکامات نہ ہوتے تو ڈاکٹروں کی ہڑتال بھی اب تک جاری رہتی کیونکہ حکومت نے اس سلسلہ میں بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔انجینئروں نے بھی اپنے مطالبات کے لئے احتجاج شروع کر رکھا ہے ۔آئے روز کلرکوں نے بھی دھرنے دے رکھے ہوتے ہیں ۔حکومتی اقدامات کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دے رہے بلکہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی کسی جگہ پر کوئی رٹ نہیں ہے ۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صحت بڑے خطرناک مرحلے میں ہے۔ ہائیکورٹ سے انہیں طبی بنیادوں پر علاج کے لئے آٹھ ہفتوں کی ضمانت ملی ہے ۔

پنجاب حکومت کی طرف سے بنائے جانےوالے سرکاری بورڈ کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ ان کے بعض ٹیسٹ پاکستان میں ممکن نہیں ہیں اور ان کا بیرون ملک علاج ضروری ہے ۔ان کے خون کے پلیٹ لیٹس بار بار کم ہو رہے ہیں جو ان کی تشویشناک حالت کی نشاندہی کرتی ہے ۔شریف فیملی کے ارکان میاں شہباز شریف ،مریم نواز اور ان کی والدہ شمیم اختر کی اولین ترجیح یہ ہے کہ وہ جلد سے جلد علاج کےلئے بیرون ملک چلے جائیں۔ شریف فیملی کا کہنا ہے کہ نواش شریف کا علاج سیاست سے بھی زیادہ اہم ہے ۔