مولانا: فیس سیونگ کی خواہش یا دھڑن تختہ کا پلان

November 14, 2019

وفاقی دا ر الحکومت کے حلقوں میں ان دنوں ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ کیا آزادی مارچ کے نتیجے میںحکومت تبدیل ہو جا ئے گی یا مو لانا فضل الرحمنٰ خالی ہاتھ واپس لوٹ جائیں گے۔ مولا نا فضل الر حمنٰ بہت زیرک سیاستدان ہیں ۔وہ خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتے نہ ہی کچا ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اس آزادی مارچ کیلئے انہوں نے پہلے ہوم ورک کیا۔ ملک بھر میں جلسے کئے ۔انہوں نے یہ جلسے جے یو آئی ف کے پلیٹ فارم سے کئے لیکن پھر انہوں نے اپوزیشن جما عتوں کو ساتھ ملایا ۔

رہبر کمیٹی بنا ئی گئی لیکن آزادی مارچ کیلئے 27اکتوبر کی تاریخ کا انتخاب جے یو آئی نے کیا۔ یہ تاریخ اپو زیشن جماعتوں کی مشاورت کے بغیر دی گئی بلکہ مسلم لیگ (ن) نے یہ تاریخ نومبر تک بڑھانے کی تجویز دی تو اسے قبول نہیں کیا گیا۔ مولانا فضل الر حمنٰ نے بہت باریک کام کیا ہے ۔ انہوں نے ایک جانب اپوزیشن جما عتوں کی رہبر کمیٹی بنا کر یہ تاثر دیا ہوا ہے کہ یہ تحریک پوری اپوزیشن کی ہے تو دوسری جانب اپنے کارڈز کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کو یہ ہوا تک نہیں لگنے دیتے کہ ان کا آئندہ کا پلان یا لائحہ عمل کیا ہے۔ اس طرح عملاً وہ سولو فلائٹ کر رہے ہیں ۔ راہبر کمیٹی میں جب جے یو آئی (ف) نے شاہراہ دستور کی جانب پیش قدمی کی تجویز دی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے صاف انکار کر دیا۔ ان دو نوں جما عتوں کا پہلے دن سے موقف ہے کہ ہم جلسے میں توشرکت کریں گے۔

تحریک بھی چلائیں گے لیکن شاہراہ دستور پر دھرنے کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ اب آ زادی مارچ کے شرکا ء خالصتاً جے یو آئی (ف) کے کارکنوں پر مشتمل ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز دونوں کی ضمانت ہو گئی ہے ۔ دونوں کو عدالت سے ریلیف ملا ہےمگر چہ مہ گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ یہ ڈیل کا حصہ ہے۔ وزیر ہوا بازی غلام سر ور خان نے بھی یہ تاثر دیا تھا کہ کہ نواز شریف ڈیل کے نتیجے میںبیرون ملک جا سکتے ہیں ۔

بہرحال یہ تو واضح ہے کہ عمرانخان نے پہلی مرتبہ نواز شریف کیلئے نرم گوشہ اختیار کیا ہے۔ جس بات سے ڈیل کی نفی ہوتی ہے وہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی جانب سے عد م اعتماد کی تحریک ہے ۔ قومی اسمبلی میںخواجہ آصف کی تقریر بھی جا رحانہ تھی ۔ دھرنے کے معاملے میں بہر حال مو لا نا فضل الر حمن ٰ تنہائی کا شکار تو ہوئے ہیں ۔ وہ جب اسلام آ باد آئے تو انہوںنے وزیر اعظم کے استعفے کیلئے دو دن کی مہلت دی ۔

ان کا لہجہ بہت پر اعتماد تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ منا سب ہو گا کہ اپنی سیا سی قوت اور حیثیت سے کہیں زیادہ تھا۔اگر الیکشن دو بارہ بھی ہوجائیں تو جے یو آئی ف کی نشستیں پھر بھی اتنی ہی ہوں گی جتنی 2018 کے الیکشن میں تھیں یا ایک ود بڑھ جائیں گی تو پھر ان کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ وہ الیکشن کرانے نہیں آئے نہ ہی فوری طور پر نئے الیکشن کے انعقاد کا کوئی امکان ہے بلکہ وہ وزیر اعظم عمرانخان پر دبائو کے ایک حربے کے طور پر استعما ل کرنے کیلئے بلا ئے گئے ہیں ۔ مقتدر حلقوں نے عمران خان کو بہت سپورٹ کیا مگر 15ماہ کے بعد بھی ان کی کوئی قابل ذکر کار کردگی سامنے نہیں آسکی بالخصوص معیشت ابھی تک بحال اور مستحکم نہیں ہو سکی ۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا گراف عوام میں گر اہے ۔

دوسرا مسلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ٹیم اچھی نہیں ہے ۔ تیسرے یہ کہ وزیر اعظم اور ان کے وزراء تکبر کے آخری درجے پر فائز ہیں ۔وزیر اعظم کے بے لچک رویے نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں اس قدر تلخما حول بنا دیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی اور پار لیما نی و آئینی امور پر بھی کوئی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکو مت صدارتی آرڈی نینس پر انحصار کر رہی ہے ۔

وزیر اعظم کی ضد اور انا نے اپوزیشن کو متحد کیا ہے ورنہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب دست تعاون بڑھایا تھا جسے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔اب بھی موقع ہے کہ وزیر اعظم اپنی پالیسی تبدیل کریں ۔ وہ بے شک اپنے احتساب کے نعرہ سے پیچھے نہ ہٹیں لیکن ملک کے مفاد میں اپوزیشن کے ساتھ اشتراک عمل پیدا کریں ۔قانون سازی پر اتفا ق رائے پیدا کریں ورنہ قومی اسمبلی سے منظور کر ائے گئے تمام بل سینٹ میں اپو زیشن مسترد کردے گی۔اگر حکومت مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی سے ورکنگ ریلیشن شپ بنا لیتی ہے تو جے یو آئی تنہا رہ جا ئے گی اور مو لا نا فضل الرحمن خی بارگیننگ پوزیشن کمزور پڑجا ئے گی۔مو لا نا فضل الر حمن کے ساتھ بھی حکومت نے ہاتھ کیا ہے ۔ ان کے ساتھ مذاکرات کا کھیل کھیلا گیا ۔

مولانا اب بند گلی میں ہیں اگر وہ شاہراہ دستور کی جانب آگے بڑھتے ہیں تو انہیں دو سری اپوزیشن جما عتوں کا ساتھ حاصل نہیں ہو گا۔

مولانا فضل الرحمن نے اپنے پلان بی کے تحت بلوچستان کی اہم شاہرائوں کو بند کر دیا اور اس کے بعد وہ دوسرے شہروں کو بھی بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ مولا نا فضل الرحمن کو بھی یہ علم ہے کہ وزیر اعظم کا اسعفیٰ نہیں مل سکتا لیکن وہ مقتدر حلقوں سے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ اگر اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا ئے تو اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے اور اس کا حشر چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک والا نہ ہو۔

جو بھی ہو بہر حال مولانا فضل الر حمنٰ فیس سیونگ کے بغیر نہیں جاسکتے ۔ دعایہ کرنی چاہئے کہ تصادم ہوا توبہت خون خرابہ ہو گا ۔ ایسا ہوا تو پھر جمہوریت کی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے ۔ بہتر یہی ہے کہ جو بھی تبدیلی آئے قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر لائی جا ئے اور جمہوری روایات کے مطابق ہو۔