غنچے کے مزار پر لکھی نظمیں

November 29, 2019

چند سال ہوئے کوہستان کے علاقے میں شادی کے موقع پر لڑکے ڈانس کر رہے تھے اور لڑکیاں تالی بجا رہی تھیں۔ جرگے نے ان سب کو عدالت کے منع کرنے کے باوجود قتل کر دیا۔ یہ واقعہ مجھے اسلئے یاد آیا کہ وزیرستان کے شاعر اور فوٹو گرافر احسان اللہ نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں شادیوں پر مرد عورتیں اکٹھے رقص کرتے تھے۔ جسکو ’’رتن ‘‘ کہا جاتا تھا یہ دونوں باتیں مظہر ہیں اس صورت کی کہ پاکستان کا معاشرہ کتنا ابتر ہو گیا ہے۔ ابھی سندھ میں تیرہ سالہ لڑکی نے ایک بچی کو جنم دیا ہے۔ اسکے باپ کا نام لڑکی کو معلوم نہیں۔ ماں باپ نے بھی گھر سے نکال دیا وہ جو آجکل پناہ گاہوں کا چرچا ہے وہ کیا عورتوں کیلئے نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اول تو سیاسی پارٹیاں خود بھی بحران کے علاوہ شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ ویسے بھی ان جماعتوں میں میری بھاوج اور تیری بہن کے علاوہ اور کون آیا ہے، سوائے نفیسہ یا شیری رحمان کے۔ انکو بھی اپنے گرفتار رہنمائوں کے بارے میں گفتگو سے فرصت نہیں ملتی۔ اب جبکہ افغانی عورتوں نے بارودی سرنگیں صاف کرنا شروع کردی ہیں۔ وزیرستان میں بھی یہ تیز اور جلدی اسلئے کیا جائے کہ ابھی گزشتہ ہفتے ہمارے جوان باردوی سرنگوں کے پھٹنے کے باعث شہید ہو گئے تھے۔

Your browser doesnt support HTML5 video.

یہ بھی دیکھیے ۔۔۔ کشور ناہید اپنی ایک خوبصورت نظم سناتے ہوئے

ان واقعات کو لکھتے لکھتے میری نظر ایک مضمون پر پڑی جو میں ایک مدت سے تلاش کر رہی تھی۔ سبب یہ کہ افغانستان سے ہجرت کرنے والی اور طالبان سے تنگ آئی خواتین کچھ تو لکھ رہی ہوںگی فوراً میری نظر فوزیہ رہگزر کی شاعری پر پڑی، اس دیار میں عورت کا کوئی نام نہیں۔

’’اے عزیز خاتون، اے تنہا دردمند، میں تمہارے شکستہ چہرے پر زردی کھنڈتی دیکھ رہی ہوں۔ تم نے اپنی سرکشی قفس کے درد سے بھرپور گوشے میں مدفون کر دی ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم ’’ایک شہرِ بےنور اور ایک شہر بےچراغ کی رہائشی ہو گئی ہو‘‘۔ کتاب کا دوسرا صفحہ پلٹا شاعرات پہ قدغن کا منظر نامہ سامنے تھا۔

میں نے اپنے سبھی اشعار کا سر قلم کر دیا اور لفظ عشق سنگسار کر ڈالا۔ افغان عورت کو الفاظ کا رفیق نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں تو شاعرہ کا نام بھی نہیں تھا۔ اگلے صفحے پر زہرا زیدی کی نظم نے پکڑ لیا۔’’ کتابیں میرا مدفن بنیں گی اور تم انہیں آگ لگا دو گے۔ میرے تمام جسم سے جلے ہوئے اشعار کی بو اٹھے گی۔ میں کاغذ کے تراشے جھاڑو پھیر کر چنبیلی کے پودے کے پاس اکٹھا کروں گی۔ میں اندھی، گونگی بھی ہو جائوں گی، تم عالم مستی میں رقص کرو گے اور راکھ اڑا دو گے، میں گریہ کروں گی اور چنبیلی کے غنچوں سے دل لگائوں گی، اب بنی ہوں مگر گرہستن اندھی اور گونگی اور میرے جسم سے ادھ جلے اشعار کی بو اٹھ رہی ہے‘‘۔

یہ نظم پڑھنے کے بعد، میں نے کتاب بند کر دی۔ یہ خواتین افغانستان سے باہر بلکہ بہت سی ایران میں ہیں مگر اپنے اوپر سامراج کے ظلم اور پدر شاہی نظام کو نہیں بھولی ہیں۔ انہیں افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہ نظمیں اسلئے بھی آپ کو سنا رہی ہوں کہ ابھی تک طالبان جو یقیناً، نئی آنے والی حکومت میں شریک کار ہوں گے، وہ کیا عورتوں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے۔ ایک اور شاعرہ لکھتی ہے۔ ’’ہماری آنکھوں کے دریا پر بند نہ باندھو، میرا دل پتھر اور سیمنٹ سے خوف زدہ ہے۔ مت کہو۔ تنہائی خوبصورت چیز ہے۔ میرا دل دیواریں خوب پہچانتا ہے‘‘۔

ایک اور شاعرہ کی نظم کا حصہ ’’مجھے کتنے سمندروں جتنا رونا پڑے گا کہ میرے دکھوں کے مرکز ےمیں گھری ہوئی گریہ و زاریاں آزاد ہو سکیں۔ مجھے اپنے خدوخال بنانے والی مہیم لکیروں سے نفرت ہے۔ میں کبھی انہیں پہچان نہ پائی۔ مجھے پتھر کی شفاف دیواروں سے وحشت ہے‘‘۔

اب ایک نظم جو اس بچے کے نام جو ہجرت کی یخ بستگی میں مر گیا ’’میں تمہیں تا ابد یاد رکھوں گی اور تمہارے ہاتھوں کی یخ بستگی کا قصہ ہر ایک کو سنائوں گی۔ اور تمہارے سرد ننھے وجود کی کہانی۔ گرم لحاف میں خوابیدہ ہر شخص کو سنائوں گی اور تمہاری ماں کے خاک پہ قطرہ قطرہ ٹپکتے آنسوئوں کا مقصد/ کاغذ پہ اتاروں گی، مہاجرین ترین بچے، کونسی زمین تمہارے تن رنجیدہ کی پناہ گاہ بنی‘‘۔

جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل کو گزشتہ 20برس سے افغانستان میں موجود اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والیاں کیسے سنا رہی ہیں۔ یہی حال سوڈان، یمن اور شام میں بھی ہے۔ پاکستان میں بھی کوئی بہت اچھی صورتحال نہیں ہے۔ پھر بھی ہم جیسے گزشتہ پچاس برس سے بول رہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر، فہمیدہ ریاض، پروین رحمان اور رضیہ بھٹی کے علاوہ بےنظیر نے بھی حق و صداقت کے لئے جان دی۔