سندھ حکومت کراچی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے کوشاں

December 05, 2019

حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم ،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ مستقل طور پر حل کرنے اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے رکن وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی ،گورنرسندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادرآباد میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی، عامرخان، وسیم اختر، فروغ نسیم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد شاہ محمودقریشی نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہہماری ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے بھی ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر کو 5فر وری کو ملنے کی دعوت دی ہے ۔

اس موقع پر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان پی ٹی آئی کیساتھ غیر مشروط تعاون کرتی آئی ہے لیکن یہ بات میں بہت دکھ کیساتھ کہ رہا ہوں کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی کی نشستیں تو ہوتی رہی ہیں تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا ہے لیکن شہری سندھ اور بلخصوص کراچی کے عوام کے مسائل پرکام کی رفتار بہت سست ہے جبکہ شہری سندھ معاشی دہشت گردی کا شکار ہے وہ اپنے حصے کا تمام کام ذمہ داری سے ادا کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔اس موقع پر خالدمقبول صدیقی نے ایم کیوایم کے بند دفاتر ، کراچی پیکیج اور لاپتہ کارکنوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔شاہ محمودقریشی نے یقین دلایا کہ وہ ان مسائل پر وزیراعظم سے بات کریں گے۔مذکورہ قانون سازی میں ایم کیو ایم کتنی معاون ثابت ہوتی ہے۔

یہ آنے والے وقت میں پتہ چلے گاکہاجارہا ہے کہ حکومت قانون سازی سے قبل ایم کیوایم کا یہ مطالبہ پورا کردے گی۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ممکن ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں پرقائم بعض مقدمات سمت ایم کیوایم کے پارٹی دفاتر بھی واپس کردیئے جائیں تاہم اس بات کا انحصار ایم کیوایم کی قیادت کی بارگینگ پر ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت کراچی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔

ادھر جے یو آئی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اس ضمن میں گزشتہ ہفتے صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جہاں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ فوج کے حساس ترین معاملات پرقانون سازی کا حق ووٹ چوری کرکے حکومت بنانے والے قبضہ گروپ کونہیں دے سکتے،تمام اپوزیشن اس بات پرمتفق ہے کہ موجودہ اسمبلی کوفوری تحلیل کرکے ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں اوراسی بنیاد پرحکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک جاری رہے گی۔

انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ کرے،ایسا نہ کیا گیا توالیکشن کمیشن پرعوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔ جبکہ عدالت نے قانون سازی کی ہدایت کی انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا حساس اورانتہائی حساس ادارہ فوج ہے اوراس ادارے کی قیادت کوانہوں نے جس طرح بے توقیرکیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس قانون ہے نہ اہلیت ہے۔عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدرشاہی سید نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ا لیکشن کمیشن کو احساس دلانے کے لیے یہاں احتجاج کررہے ہیں ،الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا،ماضی کے انتخابات میں بھی چوری ہوئی مگر 25 جولائی 2018 کو تو سینہ زوری کی گئی۔اپوزیشن کی یہ تحریک کب تک جاری رہتی ہے۔

اس سے متعلق فی الحال کچھ نہیںکہاجاسکتا۔ ادھر سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں خیراتی اداروں کو دیئے جانے والے عطیات سے متعلق سندھ چیریٹی رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن بل 2019 متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ اس بل کے تحت عطیات سے حاصل ہونے والی رقوم کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کئی کڑی شرائط عائد کردی گئی ہیں۔ اسکول اور اسپتال کے نام پر حاصل شدہ عطیات کو سیاسی ، ذاتی مقاصد میں استعمال کرنے پر سزا ہوگی۔ تمام خیراتی اداروں، پروموٹرز اور فنڈریزنگ مہم کو رجسٹرڈ کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ عطیات دینے والوں کو بھی آمدنی کے ذرائع بتاناہوں گے۔ خیراتی ادارے کو عطیات جمع کرانے سے قبل مقصد یا مقاصد بتاناہوں گے۔ قانون کے تحت سندھ چیریٹی کمیشن اور چیریٹی رجسٹریشن اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ہر خیراتی ادارہ تمام حسابات کا مکمل ریکارڈ رکھنے کا پابندہوگا۔

عطیات کو کسی بھی صورت ذاتی، کاروباری یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ کوئی بھی ادارہ اس بات کا پابند ہوگا کہ جس مقصد کے لیے عطیات دیئے گئے ہیں اسی مقصد کے لیے صرف کرے ۔ عطیات جمع کرنے والے اداروں کے افراد کی بھی رجسٹریشن کی جائے گی۔ خیراتی ادارے کی تمام مالی، سماجی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔ سندھ چیریٹی کمیشن قانون کی خلاف ورزی پر رجسٹریشن منسوخ کرنے کا مجاز ہوگا۔ چند خیراتی اداروں نے عطیات کی شکل میں ملنے والی رقوم غیرقانونی طور پر سرمایہ کاری کے لیے بھی استعمال کی گئی۔ آئندہ 50 ہزار روپے اور اس سے زیادہ کے عطیات بینک کے ذریعے جمع کراناہوں گے۔ خلاف ورزی کرنے والے خیراتی اداروں، ٹرسٹیزپر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا یہ بل صوبائی وزیر برائے پارلیمانی امورمکیش کمارچاؤلہ نے بل پیش کیا۔