ترقیاتی فنڈز خرچ کیوں نہیں ہوئے؟

December 10, 2019

ملک بھر میں تعلیم، صحت و صفائی اور علاج معالجے سمیت تمام شہری سہولتوں کی دستیابی کی بالعموم انتہائی ابتر صورتحال کے باوجود چاروں صوبوں میں موجودہ مالیاتی سال کی پہلی سہ ماہی میں ترقیاتی فنڈز کے مجموعی طور پر پچیس فیصد یا ایک چوتھائی حصے کا استعمال نہ ہونا جو دو کھرب دو ارب روپے کے بقدر اور تقریباً سوا چار کھرب روپے کے سالانہ ترقیاتی اخراجات کے ہدف کا اڑتالیس فیصد بنتا ہے، یقیناً متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی اور اہلیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اِن اعداد وشمار نے اس بات سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹس سرپلس ہو جانے کی جس کامیابی پر موجودہ معاشی حکمت کار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور خود وزیراعظم بھی جسے کئی بار اقتصادی میدان میں اپنی حکومت کی ایک بڑی فتح قرار دے چکے ہیں، اُس کا اصل راز کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق اکاؤنٹس سرپلس ہونے سے معاشی اِشاریے تو مثبت ہو گئے لیکن معیشت مجموعی طور پر سست روی کا شکار رہی۔ بتایا گیا ہے کہ 202ارب کی یہ خطیر رقم عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مقرر کیے گئے مالیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوگی۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختص رقم کا اصل مقصد کے بجائے عالمی ادارے کے مطالبات کی تکمیل کیلئے استعمال ہونا ایک ضمنی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن عوام کو مسائل کی دلدل میں دھنسائے رکھنے کی قیمت پر حاصل کیے جانے کی وجہ سے اِسے مستحسن اور مطلوب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں سالانہ ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کی گئی رقم کا تقریباً نصف پہلے تین ماہ میں صوبوں کی جانب سے مرکز کو واپس کیا جانا بظاہر کسی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا نہیں بلکہ عوامی مسائل و مشکلات کے ازالے کیلئے اقدامات میں صوبائی حکومتوں کی ناکامی کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے جو کسی طور پر بھی لائقِ تحسین نہیں لہٰذا مالی سال کے باقی حصے میں ترقیاتی منصوبوں کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اس کوتاہی کے ازالے کی ہرممکن کوشش ضروری ہے۔