لاہور کو کچرے سے پاک شہر بنانے کا عزم

December 26, 2019

شریف برادران کی لندن روانگی سے لاہور کی سیاست پر سکوت طاری ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور کارکنوں میں مایوسی کے آثار نہ صرف محسوس ہو رہے ہیں بلکہ عیاں ہیں تمام مسلم لیگی اپنے اپنے انداز اور طریقے سے اس پر تبصرے کرتے ہیں لیکن ان سب تبصروں اور آراء میں یہ بات عیاں ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کوئی این آر او نہیں لیا اور کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو پھر لندن جاتے ہی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کیوں خاموش ہوگئی ہے، مریم نواز ضمانت پر ہیں اور رائے ونڈ میں اپنے گھر پر مقیم ہیں اور آزاد بھی ہیں مگر وہ بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض ن لیگیوں نے اس بات پر شدید مایوسی اور پریشانی کا بھی اظہار کیا ہے کہ ملکی حالات اور میاں نواز شریف کی بیماری نے مسلم لیگ (ن) کو ہی نہیں بلکہ اس کی قیادت کے بیانیہ کو بھی توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے ایسے میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت بشمول مریم نواز کی خاموشی چہ معنی دارد۔

پچھلے دنوں مسلم لیگ (ن) کے سرگرم کارکنوں سے ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی جو اگرچہ زیادہ طویل تو نہیں تھی مگر اس ملاقات نے جو تاثر چھوڑا وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں نچلی سطح تک مایوسی اور پریشانی کو وضع کر رہا تھا مگر ابھی ان کارکنوں میں اپنی قیادت اور پارٹی کی واپسی کی امید باقی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی پاکستان کی سیاست میں واپسی ہو جائے گی عام (ن) لیگی کارکن اس امر کا بھی اظہار کرتے ہیںکہ مسلم لیگ (ن) کی شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی سیاست میں واپسی ممکن ہے۔ دوسرے رائے رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اب ’’ڈیل‘‘ میں حمزہ شہباز اکیلے کی بجائے مریم نواز اور ان کے بچوں کو بھی بطور ضمانت پاکستان میں رکھا گیا ہے۔

اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ پنجاب کے مسائل بھی عجیب ہیں جن پر قابو پانے اور انہیں حل کرنے کے لئے جو بھی کوششیں کی جاتی ہیں وہ کارگر ثابت نہیں ہو پارہیں جس کا ملبہ ہر مرتبہ بیورو کریسی پر ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے جس کی طرف پتہ نہیں عمران خان جیسے نڈر لیڈر بھی توجہ نہیں دے رہے اور صوبے کا ہر محکمہ اور شعبہ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اب تو پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی شاید فری ہینڈ مل گیا ہے ۔پنجاب کے چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان اگرچہ منجھے ہوئے بیورو کریٹ ہیں اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا گر بھی جانتے ہیں مگر ان کی بھاگ دوڑ کے اثرات ابھی پنجاب کی بدترین گورننس پر ظاہر ہونا شروع نہیں ہوئے۔

من پسند یا اہل جو مرضی ہے نام دے لیں مگر بیورو کریسی میں اتنے بڑے پیمانے پر اور سرعت کے ساتھ تبادلے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔پنجاب کے حکمرانوں (جن کے اختیارات اب شاید محدود ہو چکے ہیں)کو چاہئے کہ وہ بیورو کریسی کی موجودہ ٹیم سے ہی کام لینے کی کوشش کریں اور چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس کو اعتماد دیں کہ ان پر تبادلے کی تلوار نہیں ہے تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں۔ ویسے بھی اب تو پنجاب میں تعینات سینئر بیورو کریٹس میں قابل ذکر تعداد ایسے لوگ کی ہے جو میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی مناسب کارکردگی دکھا چکے ہیں۔

لاہور میں تعینات ہونے والی نئی انتظامی ٹیم کو اب اس بات کا ادراک کر لینا چاہئے کہ یہ شہر اپنی بے ہنگم آبادی کے باعث عجیب و غریب مسائل سے دوچار ہے۔ آج کل تو شہر میں صفائی نہ ہونے کے باعث ایک نیا پیچیدہ مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے اگر اس پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا اور اس کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو پھر اس سے صحت کے شدید نوعیت کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اتنا ضروری نہیں ہوتا جتنا بیماریوں سے بچائو اور حفاظت کے اقدامات پر بھرپور توجہ دینا موثر ہوتا ہے۔

اگر اس طرف موثر توجہ دی جا سکے تو پھر ہسپتالوں پر مریضوں کے دبائو کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے صفائی کے کارکنوں کی طرف سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتال سے گھمبیر صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس پر وزیراعلیٰ پنجاب، کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر لاہور کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہئے اور اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل نکالنا چاہئےاور آئندہ کے لئے بھی منصوبہ بندی کرنی چاہئے تاکہ دوبارہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ بصورت دیگر مشکلات میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔بہرحال وزیراعلیٰ بزدار نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور کو کچرے سے پاک کر دیا جائےگا۔اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

لاہور میں پچھلے دنوں پی آئی سی میں پیش آنے والا واقعہ ایسا ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور تادیر لکھا جاتا رہے گا۔ اس کے حقائق جاننے اور اس پر دوررس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ وکلاء ایک پڑھا لکھا اور مہذب شعبہ تصور کیا جاتا ہے، ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ بھی پڑھا لکھا اور مہذب شمار کیا جاتا ہے تو پھر دونوں کے درمیان ٹکرائو کی ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوئی جس نے ہمیں پوری دنیا میں شرمندہ کر دیا۔

پی آئی سی کے اس وقوعہ سے چند روز قبل پی آئی سی میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد ہسپتال عملہ اور وکلا ایک دوسرے کے خلاف ڈٹ گئے تھے، بعد میں ڈاکٹرز کی طرف سے معذرت کے بعد بھی جب معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ اہل علم و دانش اور دونوں معزز شعبوں کے کرتا دھرتا کہاں تھے انہوں نے معاملے کو کیوں سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس مسئلہ کو حل کروانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی۔ اس ٹکرائو سے یقینی طور پر بچا جا سکتا تھا مگر اس کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سانحہ سے سبق سیکھا جائے اور تمام پروفیشنل اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی سلیبس کا حصہ بنایا جائے۔