اداروں کا ٹکراو ¿ ناگزیر ہے اور سود مند بھی

March 06, 2013

پتہ نہیں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پانچ گھنٹے پر مشتمل جامع پریس بریفنگ پر ان کے امریکی ہم منصب رشک کر رہے ہوں گے یا لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ رشک اس لئے کہ کاش وہ بھی کہہ سکتے کہ وہ صدر اوباما کو ہٹا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور فرحت اس لئے محسوس کر رہے ہوں گے کہ ان کو اپنے الیکشنوں سے پہلے ایسی وضاحتیں دینا نہیں پڑتیں۔ لیکن جنرل کیانی نے جو کہا وہی درست تھا اور وہی جمہوری نظام کو زیب بھی دیتا تھا کہ فوج جمہوری نظام میںدخل انداز نہیں ہو گی۔ جنرل کیانی اپنے ادارے یعنی فوج کی پوزیشن واضح کررہے تھے اور ایسا کرنے میں وہ باالواسطہ دوسرے اداروں کی اہمیت کا بھی اعتراف کر رہے تھے۔ ان کی وضاحت اس امر کاثبوت ہے کہ اب پاکستانی ریاست کے ادارے تقریباً مسابقت کے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ٹکراو ¿ اور مفاہمت کرنا ناگزیر بھی ہے، فطری اور سود مند بھی۔ ویسے تو اپنی اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کےلئے اداروں میں دہائی دی جاتی ہے کہ ان کے مخالفین اداروں میں ٹکراو ¿ پیدا کررہے ہیں لیکن بسا اوقات ایسا شور و غوغا کرنے والے خود ہی اداروں کے درمیان کشمکش کو بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً کیری لوگر بل پر فوج کے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ اداروں کو لڑایا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ادارے کے تحفظ کےلئے یہ جنگ وہ خود شروع کر رہے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ فوج کے ادارے کی پرانی غالب حیثیت قائم رہے اور دوسرے ادارے اس میں دخل اندازی نہ کر سکیں۔ وہ اپنے مقصد میں وقتی طور پر کامیاب بھی ہو گئے لیکن یہ عارضی فتح تھی اور ہے کیونکہ سویلین ادارے فوج کو اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ایک پہلو سے فوج اور اس کے حامی غلط بھی نہیں تھے کیونکہ ہر ادارہ اپنی غالب حیثیت قائم رکھنا چاہتا تھا بقول شاہ حسین:
کہے حسین فقیر سائیں دا تحت نہ ملدے منگے
(اپنے مالک کا فقیر حسین کہتا ہے کہ تخت بھیک میں نہیں ملتے)۔
اداروں کا ٹکراو ¿ کوئی بہت بری بات ہے بھی نہیں کیونکہ ٹکراو ¿ ہی دیرینہ جمود کو توڑتا ہے۔ پاکستان کے بنیادی اداروں میں طاقت کے توازن کا روایتی ڈھنگ گہری جڑیں پکڑ چکا تھا۔ سوائے چند سالوں کے سب فیصلے فوج اور نوکر شاہی کے ہاتھ میں رہے۔ سیاسی ادارے فوج اور نوکر شاہی کی نوکری کرتے رہے اور یہی حال عدلیہ اور میڈیا کا بھی تھا۔ ظاہر بات ہے جب اس روایتی طرز حکومت یا اداروں کے جاری توازن کو چیلنج کیا جائے گا تو ٹکراو ¿ پیدا ہوگا۔ اگر عدلیہ آزادی کا مطالبہ کرے گی تو اس کی شدید مزاحمت ہوگی کیونکہ یہ ایسا ہی ہے کہ کل کا نوکر آج مالک کے مساوی حقوق کا دعویٰ کرنے لگے۔ چونکہ طاقت یا تخت بھیک میں نہیں ملتے اس لئے عدلیہ اور وکلاءکو اس کےلئے کافی طویل جدوجہد کرنا پڑی۔
عدلیہ سے بھی پیشتر پاکستان کے سیاسی ادارے یعنی سیاسی پارٹیاں اپنی جائز حیثیت کےلئے بڑے جان لیوا کرب سے گزری ہیں ۔ اسی جدوجہد میں ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوئے ، جونیجو برطرف ہوئے اور دو وزیراعظم بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جلا وطن ہوئے۔ سیاسی شعور کی نا پختگی کے باعث کافی عرصے تک سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف فوج سے مدد لیتی رہیں اور اس عمل میں منطقی طور پر فوج کا ادارہ غالب رہا لیکن لندن میں جمہوری اصولوں پر مبنی ”میثاق جمہوریت “ پر بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اتفاق کرکے ایک نئے باب کا آغاز کیا یعنی اب کوئی بھی اپنی برتری کےلئے تیسری طاقت سے مدد نہیں مانگے گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ ثابت ہو گیا کہ باوجود پیپلز پارٹی کی بد ترین گورننس کے، کسی سیاسی دھڑے نے بھی فوج کو دخل اندازی کی دعوت نہیں دی۔ اس سلسلے میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کاکردار قابل ستائش ہے۔ غرضیکہ ایک طویل جدوجہد کے بعد سیاسی ادارے کا شعور اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ اپنے اندر کی لڑائی میں تیسرے کو بندر بانٹ کا موقع نہیں دینا چاہتا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو صرف فوج ہی ایک منظم ادارہ تھی باقی ادارے بلوغت تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ نہ ریاست کو چلانے کیلئے سیاسی شعور تھا اور نہ ہی آزاد عدلیہ کا کوئی تصور تھا۔ یہ صورتحال ان اداروں میں کام کرنے والوں کے شعور تک محدود نہیں تھی بلکہ عوام کا شعور بھی اسی سطح پر تھا۔ اسی لئے ایوب خان کا مارشل لا لگائے جانے پر عوام میں شادیانے بجائے گئے۔ آج ہم جسٹس منیر کو تو کوستے ہیں لیکن ہم یہ نہیں مانتے کہ وہ جن عوام کا حصہ تھے ان کےلئے نظریہ ¿ ضرورت ہی فوقیت رکھتا تھا۔ اکثریتی عوام نے یحییٰ خان اور ضیاءالحق کے مارشل لاو ¿ں پر وہ شادیانے نہیں بجائے اور جس مذہبی اقلیت نے ان ڈکٹیٹروں کو خوش آمدید کہا وہ آج شرمندہ ہے۔ ضیاءالحق کے مارشل لاءکے وقت تو عوام کی اکثریت بھٹو کی حامی اور مارشل لاءکی مخالف تھی۔ جنرل مشرف کے آنے پر بھی عوام کی اکثریت نے مٹھائیاں نہیں بانٹیں کیونکہ نواز شریف کے حامی اکثریت نہیں تو اقلیت بھی نہیں تھے۔ زیر نظر نکتہ یہ ہے کہ ایک غیر محسوس انداز میں عوام کا شعور بالغ ہوتا گیا اور اسی وجہ سے عدلیہ اور سیاسی پارٹیوں میں شعور کی پختگی آئی ہے۔
پچھلے پانچ سالوں میں ریاست کے بنیادی اداروں میں ٹکراو ¿ اور کشمکش نمایاں تھی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے آغاز میں ریاست کے ان اداروں (خارجہ امور، سیکورٹی اور دفاعی پالیسی) پر بھی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی جو سول حکومتوں میں بھی فوج کے تابع ہوتے تھے۔ فوج کے ادارے نے کچھ عرصہ تک پیپلز پارٹی کی رسی دراز کئے رکھی لیکن جب پیپلز پارٹی ملکی گورننس کے معاملے میں ناکام اور بدنام ہونے لگی تو فوجی ادارے نے کیری لوگر بل کی مخالفت کے پردے میں ان اداروں ، بالخصوص امور خارجہ کو دوبارہ اپنے تابع کر لیا۔ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت مستعدی سے کام چلا رہی ہوتی تو شاید ممکن نہ ہوتا۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فوج نے پیپلز پارٹی کی کمزوری سے اس سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ آخر فوجی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو جمہوریت کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگرچہ بہت سے حضرات اس سے اتفاق نہیں کریں گے اور فوج کی عدم مداخلت کی دیگر توجیہات پیش کریں گے لیکن ہمارے خیال میں فوج میں بھی شعور بالغ نظری کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ فوج ہر ملک پر قبضہ کر سکتی ہے (امریکہ اور برطانیہ میں بھی) لیکن یہ صرف فوج کا شعوری عمل ہوتا ہے کہ وہ سماج کی بہتری کےلئے حکومت پر قبضہ نہیں کرتی اور سمجھتی ہیں کہ سول ادارے ریاست کے مختلف شعبوں کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ جنرل کیانی کی پریس بریفنگ اسی بالغ نظری کا اظہار تھی اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اب دوسرے ادارے مثلاً عدلیہ ایک اپنی بساط کے مطابق جمہوریت کا دفاع کرے گی جو اس سے پیشتر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے اب فوج کو بھی علم ہے کہ مارشل لاءلگانا اتنا آسان نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال میں سارے ادارے ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے ہیں یا کم از کم کشمکش کی حالت میں رہے ہیں۔ فوج اپنی پرانی حیثیت کو قائم رکھنے کےلئے جدوجہد کرتی رہی ہے تو عدلیہ اپنی آئینی برتری تسلیم کرانے کےلئے کوشاں رہی ہے۔ سیاسی ادارے فوج کے بارے میں تذبذب میں رہے لیکن وہ فوج کی روایتی برتری کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں۔ عدلیہ سیاسی اور فوجی اداروں کو آئین کے اندر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے۔ میڈیا دباو ¿ کا شکار بھی رہا ہے لیکن اس نے اپنی طاقتور حیثیت کو تسلیم بھی کرایا ہے۔ یہ اس لحاظ سے چو مکھی لڑائی تھی جس میں کوئی ایک بھی دوسرے کو ناک آﺅٹ نہیں کر سکا اور اسی لئے موجودہ پارلیمینٹ اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے۔ جمہوریت کایہی وتیرہ ہے کہ ادارے اپنی طاقت بڑھانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو ناک آو ¿ٹ نہیں کر سکتے۔
اس چو مکھی جنگ میں سیاسی اداروں کی ترجمان حکومتی پارٹی کافی کمزوری اور کسی حد تک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر ایسی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی جمہوریت کو روندا نہیں جا سکا تو ایک مضبوط سیاسی حکومت کو کیسے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر اگلی حکومت زیادہ مستعد اور مضبوط ثابت ہوئی تو اس کا دوسرے اداروں سے ٹکراو ¿ بڑھنے کا بھی امکان ہے لیکن یہ ایسا جاری عمل ہے جس کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ بہرحال ایک حقیقت واضح ہے کہ اب اگر جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو نتائج سنگین ہوں گے۔ یقینی طور پر جنرل کیانی کو اس کا اندازہ ہے۔