آپ کا صفحہ: دل و جان سے قدر دان .....

January 19, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بہترین سرپرائز، بولڈ قدم

نرجس بٹیا! سدا خوش باش، ہنستی مُسکراتی رہو۔ بعد نماز ظہر میگزین لے کر بیٹھا تو خُوشی سے دل جھوم جھوم اٹھا۔ جب ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نیا سلسلہ ’’غزوات و سرایا‘‘ دیکھا۔ بہترین سرپرائز دیا تم نے۔ مانو دل باغ باغ کر دیا۔ جہاں پوری دنیا جہاد کو دہشت گردی سے تشبیہ دے رہی ہے، وہاں تم لوگوں نے ایک بہت بولڈ قدم اٹھا کے اور غزوہ اور جہاد کی حقیقی تصویر مع ثبوت پیش کر کے واقعی ’’جہاد بالقلم‘‘ کا حق ادا کر دیا ہے۔ یوں تو جہاد پر بہت سی کُتب لکھی گئی ہیں، لیکن وہ سب علمیت کے بلند و بالا پہاڑ ہیں، جو عام قاری کے تو سَر کے اوپر ہی سے گزر جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس تمہارے سلسلے کا پہلا مضمون ہی اس قدر منطقی انداز میں لکھا گیا کہ سیدھا دل و دماغ میں اتر گیا۔ میں تمہیں اور ادارئہ جنگ کے اس جرات مندانہ اقدام پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میری دُعا ہے کہ تم مکمل استقامت و بہادری کے ساتھ اس سلسلے کو جاری رکھ پاؤ۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج:جی، اِن شاء اللہ تعالیٰ۔ آپ لوگوں کی دُعائیں سر پر سایا کیے رہیں تو ہم اپنے نیک مقاصد میں ضرور کام یاب ہوں گے۔

ایمان افروز مضمون

تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ہاتھوں میں ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سرکارِ دوعالمؐ پر ایسا روح پرور اور ایمان افروز مضمون پڑھا کہ بے اختیار آنکھیں نم ہو گئیں۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ سیرت النبیؐ پر ایسے خُوب صُورت مضامین کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سو براہِ کرم یہ سلسلہ جاری و ساری رکھیے گا۔ (حرا آصف، کراچی)

مدیرہ، نامہ نگاروں کا رشتہ

فرضی ناموں سے نامہ نگاری کا اعتراف کرنے والے مانی بھائی نے تو آخری چِٹھی لکھ کر رخصت لے لی، مگر پھر میرے تجسّس نے ایسی انگڑائی لی کہ مَیں نے گزشتہ کئی شمارے نکال کر مانی بھائی کے دیگر ناموں سے تحریر کردہ خطوط ڈھونڈ ہی نکالے، جو رنجش ملک کے فرضی ناموں سے لکھے گئے تھے۔ اس کے مَیں نے موصوف کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اندازے کی تصدیق کی کوشش کی، تو نہ صرف کام یابی ہوئی، بلکہ ان کے دیگر علمی و ادبی کاموں سے بھی واقفیت ہوگئی۔ پتا چلا کہ موصوف دو مجموعوں کے خالق بھی ہیں۔ مگر اب ادبی دنیا سے کنارہ کش ہوکر مذہب کی طرف راغب ہوچُکے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نامہ نگاری کامقصد محض مدیرہ اور نامہ نگاروں کےدرمیان ہم آہنگی اور احترام کا رشتہ قائم رکھنے کی ایک مثبت، نیک کوشش تھی۔ مگر کچھ جوابات سے رنجیدہ خاطر ہو کر وہ بزم ہی چھوڑ گئے۔ مَیں نے یہ خط اُن کی اجازت کے بغیر، محض ایک غلط فہمی دُور کرنے کے لیے لکھا ہے۔ اور اِسی لیے میں بھی خط فرضی نام ہی سے لکھ رہا ہوں۔ (مانی بھائی کا ادبی بھائی، اورنگی ٹاؤن، کراچی)

ج:مانی بھائی کے ادبی بھائی صاحب! یہ آپ لوگوں نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو کیا بلاوجہ ہی اسٹار پلس کا ڈراما بنادیا ہے۔ اور آپ کی تو ہمّت و فُرصت کو سات توپوں کی سلامی کہ پہلے سارے پرانے جریدے کھنگالے اور پھر رنجش ملک صاحب کو بھی ڈھونڈ نکالا۔ واہ بھئی واہ۔ ہماری معلومات کے مطابق تو اورنگی ٹائون وسیع و عریض رقبے پر پھیلی بستی ہے، نہ کہ دو چار گلیوں پر مشتمل، تو کیا مجنوں کی طرح گلی گلی ’’مانی بھائی، مانی بھائی‘‘ کی صدائیں لگاتےپِھرے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے آپ کے مانی بھائی بقلم خود واپس تشریف لاچُکے ہیں اور ہاں، یہ بات آپ کو کس علاّمہ نے بتائی کہ ادبی دنیا سے کنارہ کشی کے بغیر مذہب سے لگائو ممکن نہیں۔ یہ ہر معاملے میں مذہب کو بلا وجہ ہی گھسیٹنے کی روش تو خدارا ترک کردیں۔ رہی بات، مدیرہ اور نامہ نگاروں کے تعلق کی، تو وہ ادب و خلوص ہی کی بنیاد پر استوار ہے، اس ضمن میں بھی ایویں ہی مانی بھائی کو ’’ہیرو‘‘ بنانے کی ضرورت نہیں ۔

جو کام لینا ہوتا ہے

کیسی ہو، اُمید ہے خیریت سے ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کو جس سے جو کام لینا ہوتا ہے، لے لیتا ہے۔ مولانا مودودیؒ عالم نہیں تھے، لیکن علماء کے استاد ثابت ہوئے۔ مولانا طارق جمیل کو اُن کے والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن وہ مبلّغِ دین بن گئے۔ جنید جمشید پاپ سنگر سے مبلّغ ہوئے۔ اِسی طرح اللہ نے نجمی صاحب کو لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور تمہیں یہ اعزاز بخشا کہ تم ان خُوب صُورت تحریروں کو عوام النّاس تک پہنچانے کا ذریعہ بن گئیں۔ سرکارِ دوعالمؐ کی سیرت پاک کے حوالے سےلکھا گیا مضمون بہت ہی پسند آیا۔ سادہ و عمدہ اندازِ تحریر نے جیسے رُوح تک جکڑ لی۔ بیٹی! یہ سلسلہ بند نہ ہونے دینا۔ اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ تم یقیناً نیک والدین کی اچھی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہو۔ ہم جیسوں کی دُعائیں لیتی رہنا۔ اللہ کریم ادارئہ جنگ کو دن دونی، رات چوگنی ترقی دے۔ (ریحانہ ممتاز)

ج:جی، بے شک اللہ پاک کو جس سے جو کام لینا ہوتا ہے، وہ لے لیتا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون، کس کام کا، کس قدر اہل ہے۔

چائے کے ساتھ ’’سنڈے میگزین‘‘

میرا پسندیدہ موسم، موسمِ سرما جوبن پر ہے اور اِن بھیگی بھیگی سردیوں میں ’’سنڈے میگزین‘‘ چائے کے ساتھ کیا مزہ دیتا ہے، آپ سوچ نہیں سکتیں۔ اُف ستمبر کا شمارہ، واہ بھئی، کیا بات ہے۔حسبِ سابق جان دار اور شان دار ہے۔ ’’عبداللہ‘‘ اچھا جارہا ہے۔ درمیان میں کچھ بورنگ بھی ہوا، مگر اب جیسے جیسے اینڈ کی طرف بڑھ رہا ہے، دل چسپ ہوتا جارہا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے مانوس نام کافی عرصے سے کہیں گُم سے ہوگئے ہیں۔ انہیں تو کسی طور واپس لایا جائے۔ اور سُنیں، یہ خادم ملک کا آفس کیا آئی آئی چندریگر روڈ پر ہے۔ (سمیع عادلوف، جھڈو، میرپورخاص)

ج:ارے…اللہ نہ کرے، آئی آئی چندریگر روڈ پر تو ہمارا آفس ہے۔ اور خادم ملک کا کون سا آفس، پچھلے کئی برسوں سے تو وہ اپنی بے روزگاری کے قصّے کہانیاں سُنارہے ہیں اور بھلا ہم کیوں نہیں سوچ سکتے، چائے کےساتھ میگزین سے لُطف اُٹھانے کا۔ سچ کہیں تو اپنے ہاتھوں سے جریدہ تیار کرکے چُھٹی والے دن، چائے کے ساتھ دوبارہ پڑھنے کا جس قدر لُطف آتا ہے، آپ تو اُس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔

دل و جان سے قدر دان

آپ لوگ جس لگن، محنت اور خلوص کے ساتھ صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ترتیب دیتے ہیں، مَیں بخدا دل و جان سے قدردان ہوں، مگر میری غفلت کے سبب کچھ شمارے مجھ سے مِس ہوگئے، نتیجتاً کچھ مضامین بھی پڑھنے سے محروم رہا۔ کیا آپ وہ مجھے بھجوا سکتے ہیں؟؟ (راجہ محمد جاوید، لنک عزیز بھٹی روڈ، جہلم کینٹ)

ج:سوری۔ ایسی کوئی سہولت کسی کے لیے بھی دستیاب نہیں۔ آپ کو اس کے لیے ہمارے نیٹ ایڈیشن کے آرکائیوز ہی سے استفادہ کرنا ہوگا۔

شاعری کا تڑکا

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ پہلے شمارے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ شامل نہیں تھا، مگر اس کی کسر آپ نے اگلے شمارے میں پوری کر دی، حضورؐ کی ولادت باسعادت کے موقعے پر پورا ایڈیشن مرتب کر کے۔ خاص طور پر روضہ رسولؐ کی رُوح پرور تصاویر دیکھ کر تو دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلی کہ اے کاش! ہم بھی کبھی اس دَر کی زیارت کر پائیں۔ پاکستان میں ڈینگی کے پہلے ریسرچ لیڈر، یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا تفصیلی انٹرویو بہت ہی معلوماتی ثابت ہوا۔ ’’اسٹائل‘‘ میں ماڈل سے زیادہ تو ہم آپ کا رائٹ اپ شوق سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ خاص طور پر ’’شاعری کا تڑکا‘‘ تو بہت ہی لُطف دیتا ہے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں اس بار شوبز انڈسٹری کی باربی ڈول، اداکارہ زباب رانا کی کھٹّی میٹھی باتیں پڑھ کر مُسکرائے بنا نہ رہ سکے۔ انجمن حمایت اسلام کے بارے میں بزرگوں سے سُنا تھا، اب تفصیلاً پڑھ کر معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ اور وجاہت علی خان کے مضمون ’’سرزمینِ انبیاء پر چند روز‘‘ بھی لاجواب تحریر تھی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

سر سے گزر گیا

اس بار سرِورق پر بلوریں آنکھوں والی حیرت زدہ سی ماڈل براجمان تھی۔ فاروق اقدس، مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کا احوال سُنارہے تھے، مگر وہ کون سی گُتھی تھی، جو اُن سے سلجھ نہ سکی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے، پہلے تین سرایا سےمتعلق سیرحاصل معلومات حاصل ہوئیں۔ رئوف ظفر شہرئہ آفاق شاعر، ڈراما نگار امجد اسلام امجد کا تفصیلی اور بہت ہی شان دار انٹرویو لیتے نظر آئے۔ فرّخ شہزاد مَلک، بلوچستان کے سرد موسم کا احوال خوش ذائقہ کھانوں کے ساتھ سُنا رہے تھے۔ بلوچوں کی ایک ڈش سجّی تو ہمیں بھی بہت پسند ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر واقعی تبدیلی نظر آئی ’’ماڈل آنٹی‘‘ کے بجائے ایک بالی عُمریا کی ماڈل جلوہ افروز تھی۔ شفق رفیع، ’’امّاں جی‘‘ کی محنت و ہمّت کی نصیحت آموز رُوداد سُنا رہی تھیں۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ کی بہار تو جوبن پر آگئی ہے۔ ہر ہفتے بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مصباح طیّب نے بھی ایک چشم کُشا مضمون باندھا، دنیا کی بے ثباتی سے متعلق۔ اے کاش! ہم سب ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ ہاں، بس ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا پڑائو سَر ہی سے گزر گیا۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:کوئی بات نہیں، وہ پڑائو آپ کے لیے تھا بھی نہیں۔ آپ اپنے مزاج کی مناسبت سےتشریف کا ٹوکرا کہیں اور رکھ لیتے۔ میگزین میں اس قدر تنوّع، رنگا رنگی رکھی ہی اس لیے گئی ہےکہ جسے جو بھائے، وہ اُس سے حَظ اٹھائے۔

برادری کی اہمیت

فاروق اقدس کا ایک نرم و کومل مصرعے ’’اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے…‘‘ کو ’’سیاہ سی‘‘ رنگ دینا ایک آنکھ نہ بھایا، کہاں یہ لکّھو لکّھ چَھٹے، ہزار بار چلے ہوئے سیاسی کارتوس اور کہاں دسمبر جیسا گلابی، حسین مہینہ، جایئے فاروق بھائی ’’ہم نہیں کھیل رہے‘‘۔ ’’غزوات و سرایا‘‘ کی تیسری قسط کی کشتی یمِ علم و تحقیق میں ہلکورے لیتی آگے بڑھتی نظر آئی۔ عبدالمجید ساجد نے کمبلوں، لحافوں میں دھنسے، سنڈے میگزین کی خوشبو سے سرشار ہوتے قارئین کو، لاہور کو دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیئے جانے کی روح فرسا اطلاع مضمون کی شکل میں دی، ہائے رے اللہ! ذہن کی اسکرین پر دس پندرہ مرتبہ دیکھے، مانے، پہچانے ’’لہور‘‘ کی رنگارنگ تصاویر اور ’’لہوری پکوان‘‘کا ذائقہ چمک کریک لخت بجھ گیا۔ روحی معروف نے نئے پُرانے موضوع کو جدید تراش خراش کے زاویوں سے سجا کر پیش کیا، پسند آیا۔ شفق رفیع نے قارئین سنڈے کو وطنِ عزیز کے شمالی علاقوں کےحُسن سےآشناکردیااور’’ناقابلِ فراموش‘‘ کو ہمایوں ظفر نے اسماء خان، صدیقہ افتخار اور عبدالواحد کی کہانیوں سے سجایا۔ اگلے شمارے کا ستاروں بھرا سرِورق پلٹتے ہی ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ میں غزوئہ بدر سے سیراب ہوئے۔ منور راجپوت نے قرآن پاک کی حُرمت اور اُس کے آفاقی پیغام کو اُجاگر کرتے ہوئے ’’مقدّس اوراق‘‘ پر نہایت جامع فیچر تیار کیا۔ بلاشبہ، منور بہت دل سے کام کرتے ہیں، اِسی لیے اُن کی تحریریں میگزین کی تعمیر میں اساسی اہمیت رکھتی ہیں۔ ارشد عزیز، مُلک سے بدعنوانی کا خاتمہ تجویز کر رہے تھے۔ حالاں کہ ہم جیسے مشرقی مہذّب معاشروں اور زندہ قوموں میں جہاں گدا تا شاہ، سب ہی کرپشن کی غلاظت میں لِتھڑے ہوں، وہاں سے بدعنوانی کا عملی خاتمہ آسان نہیں۔ ماڈل عائشہ ملک پر نرجس ملک نے نام کی مماثلت کے سبب بہت اچھا لکھا، ظاہر ہے ’’برادری‘‘ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ ’’عبداللہ‘‘ کے مسوّدے پر تو میرا بس نہیں چلتا کہ مدیرہ کی ٹیبل سے غائب کردوں، نہ رہے گا بانس نہ باجے کی باون سُری، ایک انجمادی تصویر کے ساتھ بائیس قسطیں جھیل لیں، لیکن اللہ جانے ناول نگار کہنا کیا چاہ رہے ہیں، عجب سر پُھٹوّل ناول ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی تینوں کہانیوں کی معصومیت اور کہانی پن کا جواب نہیں تھا۔ سدرہ اقبال کی باتیں مزہ دیتی رہیں، ویسے سدرہ خطرناک حد تک سچّی ہیں اور سچّی بات ہے کہ اختر علی اختر نے سوالات بھی محتاط پوچھے کہ سامنے کوئی ’’نونہال‘‘ شخصیت نہ تھی۔ ویسے سنڈے میگزین کا ظاہر، باطن سب اُجلا، نیارا، نکھرا، خالص، دیسی، محتاط، مقبول اور ستھرا ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ سلامت رکھے۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)

ج:کچھ زیادہ پرانی بات نہیں، جب آپ اِسی ناول نگار کے گُن گا رہے تھے، قصیدے پڑھ رہے تھے۔ اور ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اپ، ماڈل کا نام، شکل دیکھ کر نہیں لکھا جاتا۔ اگر کہنے کو کوئی بات نہ ہو تو خاموش بھی رہا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہونٹوں سے پھول، کانٹے کچھ نہ کچھ ضرور ہی جھڑتا رہے۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

قریباً کوئی سال بھر بعد آپ سے مخاطب ہوں۔ اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیریت ہوگی۔ تازہ شمارہ ہاتھ میں ہے۔ آج کچھ فرصت تھی، تو سوچا، آپ سے آدھی ملاقات ہی کرلی جائے۔ ویسے کچھ سرِورق نے بھی مجبور کیا، تو ہاتھ میں قلم لینا ہی پڑا۔ اللہ معاف کرے، ٹائٹل پر موجود جامنی گِرتے ہوئےآنچل کو سنبھالتی حسینہ کی ہتھیلی کی پشت پر جو گول نشان ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے امّاں نے ٹیڑھی میڑھی روٹیاں پکانے پر گرم چمٹا لگادیا ہو اور شاید اِسی لیے حسینہ کی آنکھیں بھی حیرت اور صدمے سے جم سی گئی ہیں۔ ویسے میک اپ مجوعی طورپر اچھا ہو سکتا تھا، اگر آنکھوں کے گرد جامنی ڈورے نہ کھینچے جاتے اور پھر جامنی آنچل پر جو انیس سو ڈیڑھ کے زمانے کا کلابتّو کا کام ہے، اُس کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘پر بھی ماڈل ’’پھول، رنگ، لمحوں کی صباحت‘‘کے علاوہ سب کچھ ہی لگ رہی تھی۔ ہی ہی ہی… اس سے پہلے کہ آپ خون کے گھونٹ پیتے ہوئے ایڈیٹنگ کی قینچی چلادیں، آگے بڑھتی ہوں (ویسے منظور بس آپ کے لَبوں پر مُسکراہٹ لانا تھا) ’’آپ کاصفحہ‘‘ پر اس بار کُل بارہ خطوط ہیں، جن میں سے 10مَردوں کے ہیں (اندازہ لگایئے،کون زیادہ ویلاہے) ایک ہم ’’صنفِ نازک‘‘ہیں، سال لگ جاتا ہے آتے آتے۔ اور ایک راجا صاحب اور ملک رضوان ہیں کہ جاتے ہی نہیں۔ ہفتہ وار چٹھی کے لیےبھی کبھی ایک نام زد ہوجاتا ہے، تو کبھی دوسرا۔ اوسارہ، اومہناز، اوکومل آجائو، ورنہ اِن راجوں اورمَلکوں نےمل کرتو ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا سلسلہ ہی ختم کروادینا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ پڑھا۔ ڈاکٹر رانجھا ’’پانچ پڑائو‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ تحریر پڑھتے ہی ہم نے بھی اسد محمد خان کی ’’باسودے کی مریم‘‘پر گوگل سرچ مارا اور پڑھنا شروع کردیا۔ بلاشبہ لازوال افسانہ ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘میں مصباح طیّب موجود تھیں۔ مصباح اب اچھا لکھنے لگی ہیں اور سوری ’’عبداللہIII-‘‘ مَیں بالکل پڑھ ہی نہیں پائی۔ آپ بھی اُن لوگوں کی ڈیمانڈز سے مجبور ہوگئیں، جنہوں نے ناولز کے نام پر صرف ’’عبداللہ‘‘ ہی پڑھ رکھا ہے۔ تب ہی آپ کے سَر ہوگئے کہ پھر سے ’’عبداللہ‘‘ہی چاہیے۔ اللہ اللہ ایسے ایسے ناول مارکیٹ میں ہیں کہ کیا بتائوں۔ خدارا! اس کے بعد علیم الحق حقّی کا کوئی ناول شروع کیجیے گا تاکہ لوگوں کو پتا چلےکہ ناول کہتے کسے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مجھے ہاشم ندیم پسند نہیں۔ اُن کا ناول ’’بچپن کا دسمبر‘‘بہت اچھا تھا، مگر لوگوں کی بار بار ’’عبداللہ‘‘کی رَٹ سے سخت کوفت ہوتی ہے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ہمیشہ کی طرح بہت دل چسپی سے دیکھیں۔ ڈاکٹر قمرعباس کا تبصرہ اچھا ہوتا ہے، لیکن ابھی ش-ع کے لیول پر نہیں آئے۔ ’’متفرق‘‘بہت عمدہ اور معمول سے ہٹ کر تھا، شاباش شفق رفیع۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘میں بلوچستان کی سردی کا حال دل دہلا دینے والا تھا۔ ہم کراچی کے رہائشی تو ویسے بھی صرف احوال سُن کر ہی کانپنے لگتے ہیں۔ ہاں، امجد اسلام امجد کا انٹرویو زبردست تھا۔ اچھا ہوتا، اگر ساتھ ان کی کچھ مشہورِ زمانہ شاعری بھی لگا دی جاتی۔ ’’غزوات و سرایا‘‘ اچھا سلسلہ ہے، مگر مَیں چوں کہ اسلامی تاریخ سے متعلق کتابوں میں کافی پڑھ چُکی ہوں، تو بہت سی باتوں کا علم پہلے ہی سے ہے۔ اور یہ آپ کے میگزین کا سائز چھوٹا ہی ہوتا جارہا ہے، جواباً آپ گرانیٔ قدرِ روپیا اور کاغذ کی قیمت میں اضافے کا بتا کر حکومت کو لتاڑیں گی، تو چلیں، ہم نے معاف کیا۔ ہاں، ایک سفرنامہ بھی بھیجا تھا، اُس کا بھی کچھ اتا پتا دے دیں۔ (صبیحہ عمّاد، کورنگی کراسنگ، کراچی)

ج:ایسے کیسے معاف کیا؟ دُکھتی رگ پر ہاتھ بلکہ پائوں رکھ کے کہہ رہی ہیں، ’’جا تجھے معاف کیا۔‘‘ ارے بھئی، مجموعی طورپر تو جو مُلکی معیشت کا حال ہے، سو ہے۔ میڈیا انڈسٹری کی زبوں حالی کا آپ تصوّر بھی نہیں کرسکتیں۔ ورکرز کی چھے چھے ماہ کی تن خواہیں رُکی ہوئی ہیں، لوگ جانوں سے جارہے ہیں اور آپ کو چھوٹے، بڑے سائز کی فکر ہے۔ ہاں، اِن راجوں مہاراجوں کو گدّی سے اُتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ آپ مہناز، سارہ، کومل سب آتی جاتی رہا کریں۔اورسفرنامہ ہمارے فارمیٹ کےمطابق نہیں،’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست میں نام یوں شامل نہیں کیا کہ اچھےلکھاریوں کا نام وہاں دینا اچھا نہیں لگتا۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: کیوںبھئی، ہمارا زائچہ تیار کرنے کا ارادہ ہے۔ اور آپ کی خود اعتمادی کو بھی سلام ہے، یہ کیسے سوچ لیا آپ نےکہ ہم اس قدر آرام سے اپنی تاریخِ پیدایش کسی سے بھی شیئر کرلیںگے۔

ج: اف دانیہ!آج کے دَور میںبھی تم جیسی لڑکیاں پائی جاتی ہیں۔

ج: تو کیا ان تحریروں کی تفصیل، ناقابلِ اشاعت کی فہرست میںبھی شایع نہیںہوئی؟ ہمیںملنے والی تحریریںیا تو شایع ہوجاتی ہیں، یا نام اور عنوان کے ساتھ فہرست کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ سو، دونوںصورتوں میں تخلیق کار، رائٹر تحریر کے اسٹیٹس سے آگاہ ہوجاتا ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk