لیبر پارٹی قیادت کی دوڑ

January 22, 2020

خیال تازہ … شہزادعلی
برطانوی حزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی میں قیادت کے لیے جاری دوڑ اس وقت سیاسی پنڈتوں کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے ۔ان انتخابات کے نتائج کا اعلان اس سال 4 اپریل کو ہونا ہیں جو ایک اسپیشل کانفرنس میں کیا جانا ہے لیکن اس سے پہلے ایک طویل اور تھکا دینے والا پراسس اس عرصہ میں جاری رہے گا۔ پچھلی مرتبہ لیبر پارٹی کے رہنما کے لیے ہونے والے انتخابات میں جیرمی کوربین نے میدان مارا تھا۔ اس مرتبہ لیڈر شپ ، رہنما کے لیے ربیکا لانگ بیلی ، لیزا نینڈی، کیئر سٹارمر اور ایمی تھورنس بری کے درمیان ہے۔ ایک امیدوار جیس فلپس نے اپنا نام آج واپس لے لیا ہے دو ہفتے مہم میں رہنے کے بعد بعض مبصرین کے مطابق انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ کسی یونین کی حمایت محفوظ کرنے میں ناکام رہی ہیں البتہ وہ اس دوڑ میں شامل ہونے کے لیے درکار 23 ایم پیز کی حمایت کے حصول میں کامیاب رہی تھیں ڈپٹی لیڈرشپ، نائب رہنما کی دوڑ میں روزینہ ایلن خان، رچرڈ برگن، ڈاؤن بٹلر ،این مداری اور اینجلا دینار کے نام شامل ہیں ایک رکن ایک ووٹ کا اصول اپنایا گیا ہے۔جسے چند سال پہلے ہی نافذ کیا گیا ہے لیبر پارٹی میں نئے رہنما کے انتخاب کی ضرورت دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پارٹی کے اس وقت کے رہنما جیرمی کوربین نے یہ اعلان کیا کہ وہ اسٹینڈ ڈاؤن stand down کریں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ امیدوار ان کو رپلیس replace کرنے کے لیے اپنا کیس پیش کریں گے یاد رہے کہ حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کے بیانیہ کو عوام میں پزیرائی نہیں مل پائی ۔ اب پہلی ہسٹنگ چند روز پہلے لیورپول میں منعقد ہوئی ہے۔ پہلے چالیس منٹ پانچ امیدوار مہذب طور پر انگیج ہوئے اور کسی بھی طرح کے ذاتی حملوں کے بجائے اپنا اپنا نقطہ ہائے نظر شیئر کیا تاہم جب اینٹی سمیٹی ازم پر کامنٹس دیے گئے تو صورت حال تبدیل ہوگئی۔ نمایاں امیدوار ، سر کیئر سٹارمر ، ہم کو اپنے ممبروں کے جذبے، لگن اور مضبوطی کی ضرورت ہے جب ہم اکٹھے ہوں اور متحد ہوں تو پھر ہم کو روکا نہیں جاسکتا۔ ہسٹنگز میں مزید اس طرح خیالات پیش کیے گئے :ان کی ہمیشہ سے یہ تمنا رہی کہ عدم مساوات اور ناانصافی کو نبٹا جائے اور طاقتور کے خلاف کمزور کے ساتھ کھڑا ہوا جائے ۔ یہی میرا سوشل ازم ہے اگر میں کوئی بات غلط ہوتی دیکھوں تو اسے درست کرنے کی کوشش ہوگی موت کی سزا کے خلاف عالمی سطح پر مہم چلائی، عراق جنگ کے خلاف مارچ کیے اور خانگی تشدد کے متاثرین کے حقوق کے لیے بطور ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشن آواز بلند کی۔ آج عدم مساوات اور عدم انصاف کا مسئلہ شدت سے موجود ہے ماضی کی نسبت سب سے زیادہ آج ایک ریڈیکل لیبر گورنمنٹ کی ضرورت ہے، ہماری سوسائٹی میں طاقت، تعلیم، صحت اور دولت ہر سطح پر عدم مساوات ہے۔ مجھ سمیت بچوں کی ایک جنریشن کو گلیوں میں کبھی بھی بے گھر افراد کے مسئلہ کے بغیر وقت سے واستہ نہیں پڑا آج ہماری پبلک سروسز کو کٹوتیوں کا سامنا ہے ایسے والدین بچوں کو سکول چھوڑتے ہیں جو پیسوں کے لیے بھیک مانگتے ہیں ، ہسپتالوں کے احاطوں میں بیمار مریض بھرے ہوئے ہیں ، ویلفیئر سسٹم پر ٹوریز حملوں نے لوگوں سے ان کی شناخت چھین لی ہے، ہمارے بچوں کا مستقبل، آپ ان عدم مساوات اور عدم انصاف سے آنکھیں چڑا کر گزر نہیں سکتے ایسا ممکن نہیں ہے جو اقدار میں ہولڈ کرتا ہوں وہ سچی ویلیوز ہیں، میں اگلا الیکشن جیتنا چاہتا ہوں اور ایک نیا مناسب ، اکنامک ماڈل تشکیل دینا چاہتا ہوں کئیر سٹار مر لیبر کا وژن سیٹ کر رہے ہیں تاکہ طاقت دوبارہ حاصل کی جائے، قیادت کے امیدوار سر کیئر سٹارمر کا کہنا تھا کہ وہ ایسے امیدوار ہیں جو کئی ملین لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہم کو تعمیر نو اتحاد اور موثر اپوزیشن کی ضرورت ہے اور کامیابی کا راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے “میں صرف اپنی پارٹی ہی نہیں ملک کو بھی لیڈ کرنا چاہتا ہوں”۔ دوسری نمایاں امیدوار ، فرنٹ رنر ، ربیکا لانگ بیلی کا اصرار ہے کہ لیبر پارٹی کے متحرک افراد ایکٹیوسٹس activists لازمی طور پر سوشل ازم کےلیے سیلز پیپل sales people بنیں ،یہ پارٹی لیڈر کی دوڑ میں شامل ہیں ان کو جیرمی کوربین کے اتحادیوں کا حمایت یافتہ خیال کیا جاتا ہے اور مومنٹم کی حمایت حاصل ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان ایکوالٹی اور ماحولیات کے مسائل پر رات جاگتی رہیں لیکن یہ سوال بھی سامنے ہے کہ کیسے سوشل ازم کو مین سٹریم پر پیش کیا جائے۔ہماری جاب یہ ہے کہ کہ کیسے ایک سیلز پیپل کے طور پر لوگوں کے سامنے سوشل ازم کے لیے ایکٹ کیا جائے، لیفٹ ونگ امیدوار نے کہا کہ کیسے لوگوں کو یہ اعتماد دلایا جائے کہ جن باتوں پر ہم یقین رکھتے ہیں یہ سینس ایبل ہے اور ہم اپنی معیشت کو ٹرانسفارم، تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم چونکہ جو کچھ یہاں پر بات کر رہے ہیں دیگر یورپی ملکوں میں یہ ہوچکا ہے اور وہ اسے فار - لیفٹ ۔ونگ یا کریزی crazy نہیں کہتے ، یہ وہ ہے جو ایک مہذب سول لائزڈ سوسائٹی جس کی توقع کرتا ہے، اور میں وہ لیڈر بننا چاہتی ہوں جو یہ انسپائریشنل پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ خیال رہے کہ ربیکا لانگ بیلی کا نامزد کرنے والے ایم پیز میں ڈائن ایبٹ، طاہر علی ، پاؤلا بارکر، افسانہ بیگم، ریچل ہوپکنز، عمران حسین، جان میکڈانلڈ شامل ہیں، تمام لیبر ممبران کی ماند ربیکا لانگ بیلی کے محسوسات یہ ہیں کہ وہ حالیہ الیکشن میں پارٹی کے ہارنے پر رنجیدہ ہیں۔ کنزرویٹو کی طویل حکومتوں کے بعد ملک کو عدم مساوات کا سامنا ہے، چار ملین بچے غربت میں پرورش پا رہے ہیں۔ایک ایمرجنسی قسم کا ماحول تخلیق پا گیا ہے۔ ووٹروں کو اس لہر کو تبدیل کرنے کا موقع ملا مگر ہم ناکام رہے اب لیبر لیڈرشپ کی مہم یہ موقع دے رہی ہے کہ دیانت داری سےاپنا تنقیدی جائزہ کیا جائے کہ کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں اور اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے ؟ کس طرح کامیابی ایک مرتبہ پھر اس ورکنگ کلاس پارٹی کے قدم چوم سکتی ہے۔ ہم ووٹرز کا بریگزٹ اور اینٹی سیمنٹ ازم پر اعتماد کھو بیٹھے پارٹی میں اتحاد کا فقدان تھا اور بیانیہ واضح نہیں تھا کہ ہم اگر حکومت میں آگئے تو کیا اعداف ہونگے، لانگ بیلی ،ہمیں اس ذاتی محاسسبہ سے سیکھنا ہوگا مگر مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اب اگلے انتخابات جیتنے کے لیے لیبر پارٹی کو ایسی لیڈرشپ کی اشد ضرورت ہے جو پارٹی کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکے اور ساتھ ہی ملک کو درپیش بحرانوں سے بھی نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکے ربیکا کا وژن ہے کہ جمہوری طور طریقے سے دولت اور طاقت عام افراد تک منتقل ہو۔ اس مقولے کو اپنا فلسفہ سمجھتی ہیں کہ طاقت کے حصول کا مقصد اس بات کے قابل بننا ہے کہ آپ اس کو آگے دے سکیں۔ لیزا نینڈی ، انہیں یہ پریشانی ہے کہ ہمارا ملک کس طرف جارہا ہے اور اپنی پبلک سروسز کے انہدام یعنی حالت زار پر تشویش ہے انہوں نے پارٹی پر نئے جذبوں سے کام کرنے پر زور دیا۔ جیس فلپس نے یہ اہم نقطہ اٹھایا کہ انہیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ فی الوقت لیبر پارٹی کی ان لوگوں تک رسائی نہیں جہاں پر سخت ضرورت اور زیادہ طلب ہے ایملی تھورنس بری نے بھی سوالوں کے جواب دیے۔ ان کے متعلق یہ رپورٹ کیا گیا ہے کہ وہ اگر جیت گئیں تو امیروں پر زیادہ ٹیکس عاید کرنے کی حمایتی ہوں گی تاکہ اس طرح ٹیکس بڑھا کر سوسائٹی کو بہتر راستے پر ڈالا جاسکے۔ گارڈین، منگل 21 جنوری شاپ ورکرز یونین آس ڈا نے سر کئیر سٹارمر کو لیبر لیڈر کے طور پر نامزد کیا ہے جب کہ یونی سن اور سیرا بھی انہی کی حمایت کر رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس فائنل بیلٹ کے لیے جگہ کے لیے گارنٹی مل گئی ہے۔عملی طور پر اس دوڑ میں وہی امیدوار کلیئر ہوتے ہیں جن کو Unite, Unison, GMB, Usdaw، CWU ان پانچ یونینز کی سپورٹ ملے۔ لیبر ممبران ہی نہیں ملک کے عوام کی ایک قابل ذکر تعداد کی خواہش ہے کہ لیبر پارٹی جو بھی لیڈر منتخب کرے وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہو ۔ اس وقت برطانیہ کو اگرچہ یہ ایک سپر پاور ہے لیکن کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، حکومت پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن اور وژنری اپوزیشن لیڈر اور ان کی ٹیم ناگزیر ہے اس تناظر میں لیبر ممبران کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کشمیری جن کی قابل ذکر تعداد بھی برطانیہ میں لیبر ممبر ہے ان کو بھی اس اہم موقع پر اپنا ووٹ قومی امانت سمجھ کر استعمال کرنا ہے اور ایک اچھی ٹیم کو سپورٹ اور پروموٹ کرنا ہے۔