نیا صوبہ اور بے دل مساعی

March 10, 2013

یوں تو پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے سلسلے میں سینیٹ میں 24 واں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا ہے۔ بل کی حمایت میں70/اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا تاہم دوسری طرف بل کی شق وار منظوری کے دوران مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور جے یو آئی ف نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا، مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے اس بل کو الیکشن اسٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئے صوبوں کا شوشہ انتخابات کی وجہ سے چھوڑا گیا ہے مسلم لیگ (ن) اس بل کی قومی اسمبلی میں مخالفت کرے گی، یہ حسن اتفاق نہیں بلکہ تاریخ کا مخمصہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر ایسے عمل کو متنازع بنا دیا جاتا ہے جو بہرصورت حل کا متقاضی ہوتا ہے، یہ تسیلم کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ حسن بھی ہمارے ہاں یوں داغدار ہو جاتا ہے کہ اس کے پس پردہ محرکات و وجوہات وہ نہیں ہوتے جن کا برسر زمین اظہار کیا جاتا ہے۔نئے صوبوں کے حوالے سے جو کھچڑی پکی ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کھانے سے زیادہ دکھانے کیلئے ہے اور اس سے ان لوگوں کے جذبات سے کھیلنا مقصود ہے جن کا اس مسئلے سے براہ راست تعلق ہے۔ جن دنوں صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہو کر خیبر پختونخوا بنا، اس وقت ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ جب برطانوی استعمار کے دیئے ہوئے شمالی مغربی صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کی راہ میں حب الوطنی کے داعی نام نہاد سورما مخالفت کرتے ہوئے بھنگڑا پا سکتے ہیں تو پھر نام کی تبدیلی سے بڑے مسئلے پر یعنی نئے صوبوں کے قیام پر کیونکر اتفاق مکمل ہو سکے گا!!؟ یہاں تو نفرتوں کا کاروبار اس قدر عام ہے کہ خیبر پختونخوا کا نام آئین پاکستان کا حصہ بن جانے کے باوجود بعض اصحاب اسے زبان مبارک پر لاتے ہوئے شرماتے ہیں۔عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ جب انگریز کے دیئے ہوئے نام کی تبدیلی کیلئے اے این پی و دیگر ہمنواؤں کو برسوں پاپڑ بیلنے پڑے ہیں تو نئے صوبے کا خواب یوں آسانی سے کس طرح شرمندہٴ تعبیر ہو سکے گا !! یہ درست ہے کہ سرائیکی عوام کا نئے صوبے سے متعلق مطالبہ بھی نیا نہیں اور برسوں پرانا ہے، بعض قوم پرست جماعتوں نے اسے عرصے سے اپنے منشور میں بھی شامل کر رکھا ہے لیکن اس کے خدوخال کبھی بھی واضح نہیں رہے اور جو سامنے آئے اس پر بھی اتفاق تو کجا، اس کے خلاف نئے صوبے کے حامی ہی ایک دوسرے کے خلاف عین موقع پر صف آراء ہوتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں خود سرائیکی عوام کا باہم یک آواز نہ ہونا اس جائز مطالبے کی تکمیل میں ایک لاینحل صورتحال کا سبب بنتا رہا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے عوام کے جہد مسلسل اور بالخصوص خیبر پختونخوا کا نام قرطاسِ مملکت پر آنے کے بعد اگر ایک طرف حکمران جماعت اس کا کریڈٹ لینے کیلئے آگے آئی تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) جسے وسطی پنجاب کے حقوق کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس نے بھی خود کو کریڈٹ لینے کی اس دوڑ سے باہر رکھنا مناسب نہیں سمجھا لیکن اخلاص کا فقدان، ایک دوسرے کو زیر رکھنے کی پالیسی اور روایتی موقع پرست چالیں ایسی آڑے آئی ہیں کہ دور دور تک یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔قیاس یہی ہے کہ ہمارے اختیار مند عوامی امنگوں کے مطابق کوئی مسئلہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے، اگر معاملہ فہمی بروئے کار لائی جاتی تو شاید آج بنگال، بنگلہ دیش نہ بن پاتا۔ اب جو نئے صوبے کے حوالے سے تضادات ہیں انہیں حل کیا جا سکتا ہے اگر عوام کے بزعم خود حقیقی نمائندے اس جانب پیشرفت کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔ یہ عوام سے زیادہ ان شاطر لیڈروں کے شوشے ہیں کہ کوئی متفقہ حل سامنے نہیں آرہا، ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں لیکن انتظامی بنیادوں پر تو دوسری طرف تشخص کی بات عام ہے۔ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کا جو بل منظور ہوا ہے اس حوالے سے کمیشن نے جو تجاویز دی تھیں اس کے مطابق اس صوبے میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور سرگودھا ڈویژن شامل ہوں گے ان ڈویژنوں میں13/اضلاع آتے ہیں، ملتان ڈویژن میں ضلع ملتان، خانیوال، وہاڑی، بہاولپور ڈویژن میں ضلع بہاولپور، رحیم یار خان، بہاولنگر، لودھراں، ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں ڈی جی خان، مظفر گڑھ، راجن پور، لیہ جبکہ سرگودھا ڈویژن میں ضلع سرگودھا، میانوالی اور بھکر شامل ہیں۔ کمیشن کے مطابق نئے صوبے کا ہیڈ کوارٹر بہاولپور ہو گا کمیشن کی اس تجویز کو درکار پذیرائی حاصل نہیں اور اس تجویز نے یہاں کے عوام کو سیاسی حوالے سے باہم دست و گریباں کر رکھا ہے۔ چار اضلاع بہاولپور، بہاولنگر، لودھراں اور رحیم یار خان کے عوام بہاولپور کو دارالحکومت دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ باقی9/اضلاع کے باسی ملتان کیلئے ایسا خواب دیکھ رہے ہیں۔ بہاولپور کو دارالحکومت بنانے سے دور دراز میانوالی اور بھکر کے باشندے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اسی لئے ایک رائے یہ ہے کہ ایسی صورت میں بہتر یہ ہو گا کہ میانوالی کو خیبر پختونخوا اور بھکر کو لاہور میں شامل کر دیا جائے۔ مسلم لیگ اور اس کے ہمنوا اس سوچ کے حامی ہیں کہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب انتظامی بنیادوں پر علیحدہ علیحدہ صوبے ہونے چاہئیں۔ صوبہ بہاولپور کا دارالحکومت بہاولپور اور جنوبی پنجاب کا دارالحکومت ملتان ہو، علیحدہ صوبے کا نام سرائیکستان رکھے جانے کے حوالے سے بھی جذباتی فضا موجود ہے اور چولستان کے نام سے بھی صوبے کا نام گردش میں ہے۔ خیبر پختونخوا کا نام ارض پاکستان پر طلوع ہونے کے فوری بعد حکومتی زعماء نے ڈیرہ اسماعیل خان یہاں تک کہ ٹانک کو بھی مجوزہ سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کے نقشے میں ظاہر دکھایا تھا اس کے پس پردہ کوئی اور جبکہ اسٹیج پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی وغیرہ وغیرہ تھے حکمران جماعت اس تجویز کو پختون قوم پرست جماعتوں کے دباؤ پر واپس لینے پر مجبور ہوئی، بہرکیف نہ صرف پنجاب میں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی جہاں ضرورت ہو نئے صوبے بننے چاہئیں اس حوالے سے بلوچستان میں پختون بلوچ قومیتیں تاریخی، لسانی، ثقافتی جغرافیائی بنیادوں پر صوبے کی ازسر نو تشکیل پر متفق بھی ہیں تاہم بلوچوں کو درپیش صورتحال کے تناظر میں سردست اس ایشو کو نہ اٹھایا جانا صدیوں سے قائم پختون بلوچ دوستی کا بین ثبوت ہے، قبائلی علاقوں پر مشتمل وسطی پختونخوا کے نام سے نئے صوبے یا قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی آئے روز اپنی جڑیں مضبوط بنا رہا ہے، سرائیکی کے صوبے کیلئے سرائیکی عوام کا استدلال بلاشبہ لائق توجہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے کل وسائل کا30 فیصد جنوبی پنجاب فراہم کرتا ہے لیکن جنوبی پنجاب پر اس کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔