ٹرمپ کے منصوبے پر فلسطینیوں کا ردعمل

February 05, 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے وائٹ ہائوس میں فلسطینی ریاست کا امن منصوبہ پیش کیا اس موقع پر اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے علاوہ چند عرب ممالک کے نمائندگان بھی اس موقع پر موجود تھے۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ یہ امن منصوبہ فلسطینیوں کے فائدہ میں ہے۔ منصوبہ میں فلسطینی ریاست کی بات کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے کہا، مغربی کنارے پر آباد یہودی بستیوں کو فلسطینی تسلیم کریں ،انہیں وہاں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، نیز یروشلم اسرائیل کا دارالخلافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ فلسطینیوں کے لئے یہ آخری موقع ہو۔ اس منصوبہ کے تحت اصل فلسطینی ریاست کا جو ان کو سات عشرے قبل میسر تھی اس کا صرف 15فیصد حصہ دیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صدر ٹرمپ کے داماد، جیراڈکشنر نے خفیہ طور پر تیار کیا ہے۔ اس منصوبہ کو اسرائیلی اور دیگر عالمی رہنمائوں نے یکسر مسترد کردیا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم نے اس منصوبہ پرصدر ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس صدی کا عظیم منصوبہ ہے، جبکہ فلسطین کے وزیراعظم کے نے محمد اشتبہ کا کہناہے کہ اس منصوبہ کو فلسطینی عوام نے یک طرفہ، غاصبانہ اور مضحکہ خیز منصوبہ قرار دیا ہے۔ یہ ایک نئی سازش کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک مذاق ہے کہ صدر ٹرمپ ایک محدود ریاست بناکر مقبوضہ مغربی کنارے پر آباد کی گئیں بستیوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کی تجویز دی ہے اور یروشلم اسرائیل کے حوالے کرنے کی حمایت کی۔

فلسطینی وزیراعظم نے کہا کہ ہم اسرائیل پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملانے یا مزید بستیاں بنانے کی کوشش کی تو فلسطین اور اسرائیل کے مابین جو معاہدے اب تک ہوئے ہیں، انہیں منسوخ کردیا جائے گا۔ اگر ہم اس منصوبہ کو تسلیم کرلیں تو ہمیں اچھا کہا جائے گا اگر مسترد کردیں تو برا کہا جائے گا ہم برا کہلانا پسند کرتے ہیں مگر یہ منصوبہ پسند نہیں کرتے۔ یہ ہمارا قانونی حق ہے کہ ہم فلسطین کو آزاد کرائیں اور یروشلم کو اس کا دارالخلافہ بنائیں۔

فلسطین کا مسئلہ پہلی بار بین الاقوامی منظر نامہ پر ابھرا جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ فلسطین سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ جب برطانیہ نے اس پر قبضہ کیا تو 1917میں بلغور اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہودی اس علاقے میں اپنی بستیاں آباد کریں۔ 1922-1947کے دوران ہزاروں یہودیوں نے یہاں اپنے گھر بنالئے، اس مسئلے پر احتجاج اور پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے جس سے پریشان ہوکر برطانیہ نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا ،تب اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد 181میں فیصلہ صادر کیا کہ فلسطین میں دو ریاستیں قائم ہوں گی ایک فلسطینی عرب ریاست دوسری یہودی ریاست۔ اس کے باوجود اسرائیل نے عربوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا شروع کردیا۔

اس کے بعد تشدد جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رہا، مگر 1967میں عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کے دو تہائی علاقے سمیت مصر اور اردن کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا جو فلسطین کی سرحد پر واقع تھے۔ اس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوری مطالبہ کرتے ہوئے قرارداد 242 جاری کردی ،جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہ فوری خالی کردے،مگر معاملہ اس کے برعکس رہا ۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور یہودی ریاست میں توسیع عمل میں آتی رہی۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اس کو ایران، ترکی نے تسلیم کرلیا تھا اور امریکا کی وجہ سے سعودی عرب نے بھی اسرائیل کو نرم گوشہ فراہم کردیا تھا۔

درحقیقت اسرائیل امریکی اور مغربی مفادات کا نگراں تصور کیا جاتا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کے بڑے ذخائر جن پر امریکا اور مغربی ممالک کا انحصار تھا اور وہ اسرائیل مضبوط، مستحکم اور فعال ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اب بھی امریکا ہر سال اسرائیل کو تین ارب ڈالر کی امداد فراہم کرتا ہے ،اس کے علاوہ جدید ہتھیار بھی امریکا سے حاصل کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے بھی دو ریاستی حل پر حامی بھری تھی مگر یہودی بستیوں کی مسلسل تعمیر سے معاملہ ہمیشہ تنائو کا شکار رہا اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی جارحیت جارہی رہی۔ اس حوالے سے وزیراعظم نتن یاہو کا دور شدت پسند اور قدامت پسند دور رہا ہے۔

فلسطین کے انتظامی صدر محمود عباس بھی دو ریاستی حل پر راضی ہیں اس ضمن میں فرانس نے جو منصوبہ تجویز کیا تھا اس کی بھی انہوں نے حمایت کی تھی مگر وہ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا، کیوںکہ امریکا اور اسرائیل کو اس منصوبہ سے دلچسپی نہیں تھی۔ صدر محمود عباس کہتے ہیں، اب فلسطینی عوام کی واضح اکثریت دو ریاستی منصوبہ سے مایوس ہوچکی ہےاور وہ اس کو ناقابل عمل تصور کرنے لگے ہیں۔

چند روز قبل ہی مصر کے دارالخلافہ قاہرہ میں عرب لیگ کے رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں فلسطینی رہنما محمود عباس بھی شریک تھے۔ اجلاس کے شرکا نے صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبہ کو یکسر مسترد کردیا۔ تاہم اس مسئلے پر بھی عرب رہنمائوں میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک دھڑے کی رائے ہے کہ اس وقت خطے میں ایران کی وجہ سے کشیدگی پائی جاتی ہے اس لئے فلسطینیوں کو حالیہ امریکی منصوبہ قبول کرلینا چاہئے ۔جبکہ دوسرے دھڑے کی رائے ہے کہ، ٹرمپ منصوبہ میں کوئی بھی نکتہ فلسطینیوں کے حق میں نہیں ہے ،جس کے لئے وہ ایک طویل عرصے سے اپنی قیمتی جانوں اور اپنی املاک کی قربانیاں دیتے آئے ہیں۔

پہلا دھڑا جو امریکی منصوبے کی حمایت کررہا ہے ۔اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین شامل ہیں۔ مصر نے محتاط انداز اپناتے ہوئے اعلامیہ میں کہا کہ وہ ابھی اس منصوبہ پر پوری سنجیدگی سے غور کررہا ہے،تاہم مصر کی حکومت اس منصوبے کی تائید نہیں کررہی ہے۔ تاہم اردن نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے ۔دریائے اردن کا مغربی کنارہ اسرائیل کے قبضہ ہے۔ اردن یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کا نگراں ہے، جو مسلمانوں کی تیسری اہم ترین عبادت گاہ ہے۔

واضح رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد کے تینوں مذاہب یہودی، عیسائی اور مسلمان بیت المقدس کو اپنا اپنا قبلہ تصور کرتے رہے ہیں۔معروف مسلم سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے 1187میں یروشلم کو عیسائیوں سے آزاد کرایا تھا اور وہاں مسجد الاقصیٰ کی تزئین و آرائش کرکے اس کو دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کیا جبکہ یہ مسجد حضرت عمرؓخلیفہ دوم کے دور میں بھی تعمیر ہوئی تھی۔ یہ مسجد مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھا۔ جس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے حکم پر نبی صلہ علیہ وسلم نے مکہ کو قبلہ بنایا تھا۔

اس کے علاوہ ہمارے نبی صلہ علیہ وسلم یہاں سے معراج پر روانہ ہوئے تھے اور آپ کو یہ سعادت اس مسجد کے ذریعے حاصل ہوئی تٓھی۔ اس طرح مختلف تاریخی، مذہبی حوالوں سے مسلمانوں کے لئے بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ بہت اہم ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی پر اسرائیل کا قبضہ ہے جس نے ستر سال سے زائد عرصے سے فلسطینی عوام پر زندگی تنگ کر رکھی ہے اور بیت المقدس پر بھی قابض، جس کو اسرائیل نے کچھ عرصہ قبل اپنا دارالخلافہ بنانے کا اعلان بھی کیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے اس کی تائید میں امریکی سفارت خانہ کی بیت المقدس میں منتقل کرنے کا حکم بھی صادر کردیا۔

درحقیقت دنیا میں جنگل کا قانون چلتا ہے عرب سفارت کار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،کیونکہ دنیا میں بڑی طاقتیں دو عملی کا شکار ہیں ان کو اپنے مفادات عزیز ہیں جن کو وہ اپنی عسکری، معاشی اور سفارت کاری کے حربوں سے پورے کرتی چلی آرہی ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ بھی ایسا ہی ،اس سفارت کار کہنا تھا کہ امریکی منصوبہ کے اعلان کے بعد روس کے صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا مگر انہوں نے منصوبہ کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ دنیا میں طاقت کا مسئلہ رائج ہے۔ اصول پسندی، رواداری، قوموں کے حقوق، مساوات، یہ سب تقریروں اور تحریروں کی زینت ہیں، اس کا حقیقی دنیا اور اس کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی فلسطینی عوام کا المیہ ہے۔