دہلی، انسانیت کا درس۔!

March 05, 2020

آج میں اپنے کالم کا آغازشری پریم کانت جیسے دردمند انسانوں کو خراج تحسین کرنے سے کرنا چاہوں گا جنہوں نے نفرت کی آگ میں دہکتے بھارتی شہر دہلی میں مظلوم اور بے بس مسلمان شہریوں کی عملی مدد کرکے ثابت کردیا کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق پریم کانت نے جب دیکھا کہ اس کے مسلمان پڑوسیوں کے گھروں کو بلوائیوں نے نذرِ آتش کردیا ہے تو وہ مظلوموں کی چیخ و پکار سن کر آگے بڑھا اور آگ میں جلتے گھر سے 6مسلمان پڑوسیوں کو نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ تاہم اس کوشش میں اس کے جسم کا سترفیصد سے زائد حصہ آگ سے بری طرح جھلس گیا، رپورٹس کے مطابق اس کے جسم کا سب سے زیادہ حصہ مسلمان پڑوسی کی بزرگ والدہ کو جلتے گھر سے باہر نکالنے کی کوشش سے متاثر ہوا۔ افسوس کا مقام ہے کہ بلوائیوں کے ڈر کی وجہ سے کوئی ایمبولینس نہ پہنچ سکی اور رات بھر زخموں سے سسکنے کے بعد اگلی صبح اسے اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ تو ایک شری پریم کانت کی کہانی ہے جو میڈیا کے توسط سے منظرعام پر آگئی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی نفرت انگیز پالیسیوں کو رد کرنے کیلئے ہندو مسلم کی تفریق سے بالاتر ہوکر امن پسند شہریوںکی بڑی تعداد سڑکوں پر موجود ہے، برطانیہ میں قائم مسلم کونسل ادارے نے ایک تصویر ٹویٹ کی ہے کہ دہلی میں مسلمانوں کو بحفاظت نماز کی ادائیگی یقینی بنانے کیلئے ہندو شہری مسجد کے باہر پہرہ دے رہے ہیں، اسی طرح دہلی کے مختلف مندروں اور گوردواروں کے دروازے مظلوم مسلمانوں کیلئے کھول دئیے گئے ہیں، سلیم پور جیسے مختلف آفت زدہ علاقوں میں شدت پسند بلوائیوں کا حملہ ناکام بنانے کیلئے مقامی ہندو باشندوں کی جانب سے اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے کی اطلاعات ہیں۔ دہلی کے مسلمان متاثرین کیلئے جو ریلیف کیمپ قائم کئےگئے ہیں وہاں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اظہار یکجہتی کیلئے امداد فراہم کررہے ہیں،رضاکار تنظیموں کی جانب سے حالیہ فسادات سے متاثرہ مسلمانوںکے لئے کپڑے، دواؤں اور دیگر اشیا کا انتظام کیا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹرز نے بھی رضاکارانہ طور پر یہاں اپنامفت کیمپ لگا رکھا ہے۔ بھارتی شہر دہلی میںحالیہ فسادات کم از کم پچاس معصوموں کی جان لے چکے ہیں لیکن نریندر مودی کی حکومت خونزیزی پر قابو پانے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پولیس کا رویہ نہایت مایوس کن ہے، نئی دہلی کے علاقے اشوک نگر میں خدا کے گھر پر حملہ کرنے کی جسارت کی گئی تو پولیس نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے مسجد پر حملے کی خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا، مقامی باشندوں کے مطابق اس علاقے میں صدیوں سے مسلمان اور ہندو پڑوسی ایک ساتھ خوشی سےرہ رہے ہیں، اس شرپسندانہ کارروائی کے پیچھے بیرونی عناصر کا ہاتھ تھا جبکہ ہندو پڑوسی مسلمانوں کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں شریک ہیں۔ بھارت کے نامی گرامی مصنف ، لکھاری اور سماجی کارکن بھی نریندر مودی کی ہندوُتوا پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں،وہاں کی سول سوسائٹی کا برملاکہنا ہے کہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، دہلی میں تشددیا فسادات نہیں بلکہ مسلمان اقلیتوں کے خلاف منظم بربریت ہے۔مختلف بھارتی صحافی اپنے موقف کا اظہار کررہے ہیںکہ دہلی کی سڑکوں پر خونریزی کی بڑی وجہ بی جے پی کا پھیلایا ہوا نفرت کا زہر ہے۔پاکستانی ہندوکمیونٹی کی نمائندہ جماعت پاکستان ہندوکونسل بھی اپنے اعلیٰ سطحی اجلاس میں نریندر مودی کو دورِحاضر کا ہٹلر قرار دے چکی ہے، اجلاس کے دوران جے شری رام کا نعرہ لگاکر معصوموں کا خون بہانے والے شرپسند عناصر کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہندوُتوا کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ چند بھٹکے والے شدت پسند عناصر کا ٹولہ ہے جوبھارت میں بسنے والی معصوم اقلیتوں کو طاقت کے زور پرخاموش کرنا چاہتا ہے،دنیا کے دیگر مذاہب کی مانند ہندو دھرم بھی امن و آشتی کا درس دیتا ہے، جے شری رام کا نعرہ لگانے والے شدت پسندوں کو رامائن کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ ہندو دھرم کی صدیوں پرانی تعلیمات برداشت ، رواداری اور بھائی چارے پر مبنی ہیں، ہندو دھرم دوسرے مذاہب کی اعلیٰ تعلیمات کو اپنے اندر جذب کر نے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے جبکہ ہندوُتوا دوسرے مذاہب کی بات نہ سننے اور انہیں جڑ سے اْکھاڑ دینے کا درس دیتا ہے ، ایک صدی قبل انگریزوں کے راج میں ہندوُتوا کا متعارف کردہ نظریہ سوفیصدی نازی جرمنی کی پالیسیوں سے مشابہت رکھتا ہے،تاریخی طور پر ہٹلر کی نفرت انگیز پالیسیوں نے جیسے دنیا کے امن کو تباہ کیا، آج نریندر مودی کی حکومت سے بھی وہی خطرات علاقائی سلامتی کو لاحق ہیں۔تقسیمِ ہند کے بعد ہندوُتوا کے ایک پیروکارنے مہاتما گاندھی جی جیسی امن پسند شخصیت کو اس بنا پر موت کے گھاٹ اتار دیا تھاکہ وہ پاکستان کیلئے مثبت جذبات رکھتے تھے۔نریندرمودی کو سمجھنا چاہئے کہ آج ہٹلر کے اپنے ملک جرمنی میں کوئی جرمن باشندہ ہٹلر کا حمایتی نہیں، بھارتی سرکار کی نفرت انگیز پالیسیوں نے آج دنیا بھر کے امن پسندوں کو متحد کردیا ہے اوربھارت سے قریبی سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک بھی خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آج اقوام متحدہ کی ہائی کمیشنر برائے انسانی حقوق، پاکستان ہندو کونسل اور دیگر سول سوسائٹی اداروں کی بھارتی سپریم کورٹ سے توقع ہے کہ وہ متنازع شہریت قانون پر نظرثانی کرکے بھارتی آئین کو اصل حالت میں بحال کرے گی۔ دنیا گواہ ہے کہ آج ایک طرف سیکولر ازم کے نام لیوا بھارت میں مسلم اقلیت کا خون ناحق بہایا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیت کے مقدس مذہبی مقامات کو بحال کرکے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام عام کیا جارہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذاہب کے رہنما متحدہوجائیں اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والے شرپسندوں کی حوصلہ شکنی کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)