اُردو شاعری اور روزمرہ زندگی

March 05, 2020

بدر محمدی

روزمرہ کی زندگی میں اردو کے اشعار جس قدر کوٹ کیے جاتے ہیں کسی اور زبان کو یہ اعزاز حاصل نہیں۔تحریر و تقریر اور عام بول چال میں اتنے اشعار کسی دوسری زبان میں مستعمل نہیں اور پھر ان اشعار کابدل بھی نہیں؎

زندگی کیا کسی مفلسی کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

……٭…٭…٭…٭……

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

……٭…٭…٭…٭……

دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں

بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں

شاعری کی شروعات مختصر بیانی کے پس منظر میں ہوئی تھی۔ اس کا ایجاز و اختصار آج بھی ہماری ضرور ت ہے۔ فرق یہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں سماجی بندشوں کے پیش نظر عاشق و محبوب چوری چھپے ملتے تھے۔ ایسے میں اظہا ر خیال کے لیے اختصار درکار تھا۔ اشارے کنائے میں دل کی بات کرنے سے شعر گوئی بالخصوص غزل گوئی فروغ پائی۔ جو لوگ دل لگاتے تھے نتیجتاً شاعر ہو گئے اور ایسا بھی ہوا کہ شعر کہتے کہتے دل لگانے لگے۔ آج بھی ہمارے پاس وقت کی قلت ہے اور یہ قلت دوڑتی بھاگتی زندگی کے باعث ہے، لہٰذا آج کا آدمی مختصر ملاقات اور مختصر بات چاہتا ہے۔؎

ابھی تو آئے ہو بیٹھو ذرا چلے جانا

لگے گی دیر تمھیں حال دل سنانے میں

عملاً ہم زندگی سے بتدریج دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری زندگی مصنوعی ہوتی جارہی ہے اور احساس مرتا جارہا ہے۔ اگر احساس کہیں زندہ ہے تو شاعر اور ادیب کے یہاں۔ شعرو ادب اس لحاظ سے بھی زندگی سے وابستہ ہیں۔ اردو شاعری روزمرہ کی زندگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہیں پھولتی پھلتی ہے۔ تعلیم و تعلم، تحریر و تقریر اور روزمرہ کے دیگر حالات و کوائف میں ہم انھیں لازماً استعمال کرتے ہیں۔ مختصر گفتگو اور مکمل اظہار کے لیے شاعری بالخصوص اردو شاعری اچھا وسیلہ ہے اور نسبتاً زیادہ اثرانگیز بھی۔

اب گفتگو میں بیچ سے غائب ہے آدمی

ہم تک تو آتے آتے روایت بدل گئی

……٭…٭…٭…٭……

کیسے کہدوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے

ملتے رہتے ہیں، مگر بات نہیں ہوتی ہے

زندگی کا تعلق روزمرہ معمولات سے ہے، لہٰذا محبت کا رشتہ بھی روزمرہ سے ہے اور اردو شاعری کا محبت سے۔ اردو شاعری میں ہر بات محبت کی زبان سے کہی جاتی ہے اور کانوں میں مصری گھل سی جاتی ہے۔ شعرائے اردو معاملات محبت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ”میرا پیغام محبت ہے ،جہاں تک پہنچے“ کے علمبردار ہوتے ہیں۔ شعرائے اردو محبت کریں یا نہ کریں، مگر محبت کی بات ضرور کرتے ہیں اور اس محبت کے تناظر میں کیسی کیسی باتیں دل پسند انداز میں کہہ جاتے ہیں،جنہیں سنتے رہنے کا جی چاہتا ہے ؎

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

……٭…٭…٭…٭……

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ

دم ہی نکل گیا مرا آوازِ پا کے ساتھ

اردو اشعارسے استفادہ شاعر و ادیب ہی نہیں استاد، عالم، طالب علم، افسر، رہنما، وکیل، اور دیگر شعبہ جات کے افراد بھی کرتے ہیں۔ ان سب کے ذریعے تلخ، شیریں، سنجیدہ، مزاحیہ، کلاسیکی اور جدید اشعارپیش کیے جاتے ہیں۔ الغرض مزاج پرسی اور خیریت کی آگاہی کے سلسلے میں اردو کے بے شمار اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ان اشعار میں یہ خاصیت بھی ہے کہ انھیں حسب موقع استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈتا، تری محفل میں رہ گیا

……٭…٭…٭…٭……

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

ہندی کے معروف شاعر و ادیب تری لوچن شاستری کا اعتراف ہے کہ اردو غزل میں جو زبان مستعمل ہے وہ گفتگو کے لہجے سے بہت قریب ہے اس لیے اردو شاعری میں زندگی کے عناصر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ امریکاکے معروف ماہر نفسیات پروفیسر جیمس نے ہر شخص کو کم سے کم دس منٹ اردو شاعری کے لیے وقف کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مارکنڈے کاٹجو کا ماننا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب اردو غزل کی ہے۔نامور صحافی خوشونت سنگھ نے بھی اردو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ،’’ اردو میں ایسے ایسے الفاظ ہیں جو جذبات و احساسات دل کی سچی ترجمانی کرتے ہیں۔ داخلی کیفیات کی منہ بولتی تصویر کھینچ دیتے ہیں۔‘‘

آہ نے وہ گہرے نقشے کھینچے ہیں تاثیر کے

تم تو دل رکھتے ہو آنسو گر پڑے تصویر کے

شعر آمیز گفتگو میں نہ صرف بولنے والوں کی رغبت ہوتی ہے، بلکہ سننے والے بھی دلچسپی لیتے ہیں،کیونکہ ایسی گفتگو میں متوجہ کرنے کی پوری قوت ہوتی ہے۔ جو کام ہزاروں باتوں سے نہیں ہوتا ایک شعر سے ہوجاتا ہے۔ ایک شعر سے مکمل داستان سنائی جاسکتی ہے۔اچھا شعر انسان کو ذہنی اور روحانی فرحت بخشتا ہے۔ذہنی خلفشار اور جسمانی تساہل سے نجات دلاتا ہے۔ اردو اشعار کے ذریعے پیار کا بھی اظہار ہوتا ہے اور غصے کا بھی۔ ان میں سرور و انبساط ہی نہیں احتجاج کی بھی باتیں ہوتی ہیں۔ مظاہرہ، ناراضگی، رضا مندی اور دیگر متضاد خیالات کی کارفرمائی ملتی ہے۔دوران گفتگو ہم کبھی میر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں تو کبھی غالب اور کبھی اقبال اور اکبر کے پیام سے۔ دراصل اپنی بات کو جاندار بنانے کے لیے اس میں غنائیت اور جاذبیت بھرنے کے لیے اور گفتگو کو نپی تلی بنانے کے لیے شعر کی مدد لی جاتی ہے۔ مصرع کے اشتراک سے نثر شاعرانہ ہو جاتی ہے، بندش الفاظ میں چستی آ جاتی ہے،گفتگو کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ مکالمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے، جب شعر کا جواب شعر سے دیا جاتا ہے۔

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

……٭…٭…٭…٭……

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے کل کی خبر نہیں

……٭…٭…٭…٭……

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے

کہ جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے

اردو اشعار کو روزمرہ کی زندگی سے ہم آہنگ کرنے میں فیس بک اور واٹس ایپ کی کارکردگی بھی ناقابل فراموش ہے۔ اردو شاعری سیاست، صنعت، کھیل کود، فلم، صحت، کیریئر سازی سارے شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہے۔شاعری نثری اظہار کو پختگی بخشتی ہے۔ بعض اوقات شعر کی نثر یا اس کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ برمحل اشعار کی نثر اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کے استعمال سے بات میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ اردو شاعری کون سی بات کب، کہاں، کیسے کہی جاتی ہے، کا وہ سلیقہ دیتی ہے کہ ہر بات سنی جاتی ہے۔