دعوتِ حق کاقرآنی اسلوب (گزشتہ سے پیوستہ)

March 06, 2020

تفہیم المسائل

علامہ نظام الدین ؒنے طریقِ دعوت بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’ امر بالمعروف کے لیے پانچ امور کی ضرورت ہے:

(۱) داعی صاحبِ علم ہو ،کیونکہ جاہل احسن طریقے سے امر بالمعروف نہیں کرسکتا ، (۲) دعوتِ دین سے صرف رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ مقصود ہو،(۳) نرمی اور شفقت کے لہجے میں بات کرے تاکہ ظاہر ہو کہ داعی کو اس سے ہمدردی مقصود ہے (نہ کہ اپنے علم کی دھاک بٹھانا)،(۴) کوئی ناخوشگوار ردِ عمل آنے پر داعی ِدین جذبات میں نہ آئے بلکہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ،(۵) وہ جس امرِ خیر کی دعوت دے رہاہے، خود بھی اس پر عامل ہو، یہ نہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کی اس وعید کا مصداق بنے : ’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو ،جس پر تم خود عمل پیرانہیں ہو ،(سورۃ الصف:2)،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد5)‘‘۔دعوتِ دین کے حوالے سے تمسخرانہ یا سُوقیانہ انداز اختیار کرنے کو ہمارے فقہائے کرام نے کفریہ حرکات سے تعبیر کیاہے ،جیسے کھلنڈرے انداز میں دینی مسائل پر بات کرنا اورایک دوسرے پر تکیے وغیرہ پھینکنا وغیرہ ،ملاحظہ ہو: (فتاویٰ عالمگیری ،جلد2،ص:270اور شرح الفقہ الاکبر،ص:256)