ماحول دوست سبز عمارتیں وقت کی ضرورت

March 08, 2020

2015ءمیں ماحولیات کے حوالے سے ہونے والے ’پیرس معاہدے‘ پر عملاً بہت کم کام ہوا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے امریکی صدر بننے کے بعد اپنے ملک کو اس معاہدے سے الگ کرلیا۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دنیا کی بڑی معیشتیں، جن کا کاربن اخراج میں بڑا حصہ ہے، وہ پیرس معاہدے کے تحت اپنے حصے کا کام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن کاربن اخراج سے متعلق ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں بطور صنعت اگر انفرادی طور پر کسی کا سب سے بڑا حصہ ہے تو وہ تعمیراتی صنعت ہے۔ عالمی سطح پر کاربن اخراج میں 40فیصد حصہ تعمیراتی عمارتوں کا ہے، اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں ہر سال ایک فی صد اضافہ ہورہا ہے، جوکہ باعثِ تشویش ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت تمام صنعتوں اور ملکوں کو انفرادی طور پر ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا، جن کی مدد سے وہ اپنے دائرہ اختیار میں کاربن کے اخراج میں قابلِ ذکر حد تک کمی لانے میں کامیاب ہوسکیں اور عالمی سطحپر 2050ء تک کاربن کا اخراج بالکل ختم ہوجائے۔ اگر تعمیراتی صنعت کی بات کریں تو یہ امر حیران کن معلوم ہوتا ہے کہ کاربن اخراج میں 40فیصد حصہ رکھنے کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے عمارتوں اور ان کے کردار کو شاذو نادر ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

سبز عمارتوں کاسفر

سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے 40برس قبل ’گلوبل 2020ء‘کے نام سے ماحولیات پر ایک سائنسی مطالعہ کروایا تھا۔ اس مطالعے کے نتائج سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا اور پھر ماحولیاتی تحفظ (کلائمیٹ پروٹیکشن) سیاسی ایجنڈے کا مستقل حصہ بن گیا۔ اس کے بعد صنعتی چمنیوں کو فلٹر سسٹم فراہم کیے گئے، کاروں کو کیٹالیٹک کنورٹر دیے گئے جبکہ لکڑی کا بطور ایندھن استعمال ترک کردیا گیا اور توانائی کی بچت کے نئے تصورات متعارف کرائے گئے۔

موجودہ دور میں بجلی کی فراہمی میں قابلِتجدید توانائی کا حصہ بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کی رفتار برقرار ہے۔ ایسے میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام شعبہ جات کو ماحولیاتی تبدیلی کی کھڑکی سے دیکھیں، جس میں عمارتیں بھی شامل ہیں، جن میں ہم کام کرتے ہیں، رہتے ہیں یا پھر گھومتے پھرتے ہیں۔

بہتر عمارتوں کی ضرورت

ایک طرف جہاں ترقی یافتہ دنیا کا ایک محدود طبقہ سبز تعمیرات کی طرف متوجہ ہورہا ہے، وہیں غریب ملکوں کی بے گھر آبادی کو بھی بتدریج ایسے گھر میسر آرہے ہیں، جنھیں روایتی انداز میں تعمیر کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سبز تعمیرات کے ذریعے عمارتوں سے کاربن اخراج کو روکنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، اس کے مقابلے میں نئی روایتی عمارتیں زیادہ تعمیر ہورہی ہیں اور ان میں بجلی کی فراہمی کا ذریعہ بھی روایتی ہے یعنی اس کا نتیجہ کاربن اخراج میں اضافے کے طور پر نکلتا ہے۔ ایسے میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے ’عمارتوں کا ماحولیاتی توازن‘ (ایکو بیلنس) بہتر بنائیں۔ اس سلسلے میں نئی ٹیکنالوجیز ہمیں کئی آپشنز دیتی ہیں۔

٭ عمارتوں کی بالائی تہہ کو متحرک (Activate)کرکے اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی کو برقی توانائی میںبدلنا۔

٭ عمارت کی انسولیشن کو بہتر بناکر سردی/گرمی کا رساؤ کم کرنا۔

٭ عمارتوں کے اندرونی حصوں میں سینسرز کی تنصیب کے ذریعے سردی اور گرمی کے آلات کے غیرضروری استعمال سے بچنا۔

٭ دن کے وقت قدرتی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے توانائی کی بچت کرنا۔

٭ عمارتوں کو گرم رکھنے کے متبادل انتظامات جیسے سولرتھرمل سسٹمز کے ساتھ ہِیٹ اسٹوریج پمپس یا گیس بوائلرز استعمال کرتے ہوئے کاربن اخراج میں کمی لانا۔

کنکریٹ کا استعمال

کنکریٹ کی ایک کامیاب تاریخ ہے۔ یہاںتک کہ 14ہزار سال قبل ترکی میں چونے کے مرکب سے تیار کردہ اینٹیں عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کی جاتی تھیں۔ اس طرح ہر دور میں کنکریٹ، کسی نہ کسی شکل میں عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی تحقیق کے مطابق، 1930ء سے لے کر 2013ء تک دنیا بھر میں 76.2ارب ٹن سیمنٹ پیدا ہوئی اور اس کا 70فیصد کنکریٹ کی تیاری میں استعمال ہوا۔ اس کے نتیجے میں 38.2ارب ٹن کاربن کا اخراج بھی ہوا۔

حالیہ برسوں میںتعمیراتی شعبے میں آنے والی تیزی کے پیشِ نظر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ آج صورتِحال 2013ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ گمبھیر ہوچکی ہے۔ گلوبل کمیشن آن اکنامک اینڈ کلائمیٹ افیئرز کے مطابق، 2050ء تک تعمیراتی صنعت مزید 470ارب ٹن کاربن خارج کرے گی۔ ان حقائق کے پیشِنظر تعمیراتی صنعت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ کنکریٹ کے استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن گیس کے اخراج کو کس طرح کم کرتی ہے۔