کسی پر ظلم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں!

March 11, 2020

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیے کر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟

عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔ اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے تھوڑا ساگھی اس آدمی کی قمیص پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، تم نے میری قیمتی قمیص خراب کر دی ہے ؟ میں جب تک تم سے اس قمیص کے پیسے نا لے لوں، تمہیں تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوںگا۔عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیص پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔اس آدمی نے کہا؛ جب تک تم سے دام نا لے لوں میں تو تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوںگا۔عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیص کی؟

اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔

عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟

اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔

عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔

ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔نوجوان نے اس آدمی سے کہا: جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔

یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: کہاں جارہے ہو؟

آدمی نے پوچھا: تو تمیں مجھ سے کیا چاہیے؟

نوجوان نے کہا: تم نے اپنی قمیص کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟

آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔

نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کہاں ہے؟

آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟

نوجوان نے کہا: ہم نے تمیں تمہاری قمیص کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیص ہمیں دو اور جائو۔

آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟

نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔

آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیص نا دوں تو؟

نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دے دیں۔

اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟

نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔

اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟

نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم۔

آدمی نے کہا؛ تم نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔

نوجوان نے کہا: تمہارااس سے کوئی مطلب نہیں۔

آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔

نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیص اتار دو۔

اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تم مجھے رسوا کرنا چاہتےہو؟

نوجوان نے کہا: اور جب تم اس مسکین عورت کو رسوا کر رہے تھے تو!!

آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔

نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تمہیں ظلم لگ رہا ہے۔

اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔

اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کے لیے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا ضرور۔