مہنگائی و بیروز گاری کا خاتمہ: معاشی خوشحالی حکومت کی پہلی ترجیح

March 12, 2020

وفاقی دارالحکومت میں سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے افواہیں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ حکومتی زعماء پر امید ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا۔ حکومت پانچ سال پورے کرے گی جبکہ اپوزیشن حلقے پرامید ہیں کہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ اپوزیشن کے پاس دلیل یہ ہے کہ حکومت معیشت کی بحالی میں ناکام ہو چکی ہے۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت عوام میں تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے۔ قومی اسمبلی کا سیشن بھی چل رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے دو مرکزی راہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت ہو گئی ہے اور وہ دونوں اب سیاسی طور پر متحرک ہو چکے ہیں ۔

ان کے دورہ کراچی اور ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقاتوں نے اس تھیوری کو تقویت دی ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعت سے مسلم لیگ ن کے رابطے کا مقصد ان ہائوس تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین کے مولانا فضل الرحمنٰ سے ٹیلیفونک رابطوں کو بھی اہم سیاسی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کو علاج کیلئے ملک سے باہر جانے کی اجازت پنجاب اور وفاقی حکومت نے خود دی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایک اعلیٰ شخصیت کی ٹیلیفون کال نے بھی اس کیلئے راہ ہموار کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد، سنیٹر فیصل جاوید اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اس وقت یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ رعایت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی گئی ہے لیکن اب پنجاب حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ درخواست جمع کرادی ہے کہ نواز شریف کی ضمانت منسوخ کی جائے۔

اس طرح پی ٹی آئی حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن پر دبائو برقرار رکھے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک مخلوط حکومت ہے اور اس کی بقا اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔ جب بھی ایم کیو ایم، اختر مینگل اور ق لیگ نے آنکھیں پھیر لیں تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی ۔ ابھی تک ایم کیو ایم کی پویشن واضح نہیں ہے کیونکہ خالد مقبول صدیقی نے دوبارہ کابینہ جوائن نہیں کی ۔ق لیگ حکومت کو انجوائے کر رہی ہے۔ اختر مینگل البتہ شاکی ہیں کہ ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے لیکن ظاہر ہے کہ ابھی تک انکے پاس دوسرا کوئی واضح آپشن نہیں ہے۔

مسلم لیگ ن کی سیاسی فعالیت اپنی جگہ لیکن حکومت کی تبدیلی کیلئے ان کی کوششوں کو تبھی سنجیدہ لیا جائے گا جب پارٹی کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف خود وطن واپس آکر متحرک اور فعال کردار ادا کریں گے۔ رواںماہ شہباز شریف کی پاکستان آمد متوقع ہے جس کے بعد مسلم لیگ ن کے کارڈز اوپن ہوں گے۔ پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کو آن بورڈ لئے بغیر مسلم لیگ ن کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ ابھی تک ان ہائوس تبدیلی کے ایشو پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو نے لاہور کا دورہ کیا ہے۔ وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا احیاء چاہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن ٰ نے اسلام آباد میں تحفظ آئین کانفرنس منعقد کی ہے۔ وہ اس طرح کے کنونشن بڑے شہروں میں کر رہے ہیں لیکن یہ بات وہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ نہیں ہوں گی وہ عمران خان کی حکومت نہیں گرا سکتے ۔ وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے ان کی حکومت کی بقاء ان کی کار کردگی میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے اب تک ان کی کار کردگی قابل رشک نہیں ہے۔ لوگوں نے انہیں تبدیلی کے نعرے پر ووٹ دیا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو۔ بیروزگاری کاخا تمہ ہو۔

مہنگائی کا خاتمہ ہو۔ گڈ گورننس آئے۔ انصاف ملے وزیراعظم خود بھی بےروزگاری کا خاتمہ اور مہنگائی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں لیکن ابھی تک پی ٹی آئی کے نہ صرف وزراء بلکہ خود وزیراعظم اپنی تمام تر توانائیاں معاشی ابتری، مہنگائی، ناقص گورننس کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈالنے پر صرف کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی کامیابی یہ ہے کہ سابق حکمرانوں کو لعن طعن کی جائے۔ انہیں بدنام کیا جائے۔ ابتدائی چھ ماہ تک کیلئے تو یہ فارمولا درست تھا لیکن اب عوام یہ بیان بازی سننے کو تیار نہیں ہیں۔

عوام اب حکومت سے ان کی کارکردگی سننا چاہتی ہے کیونکہ حکومت کو اقتدار میں آئے اب ڈیڑھ سال گزر چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے تھے کہ ہر سال آٹھ ہزار ارب ریونیو آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر سال اربوں کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔ رواں مالی سال کیلئے حکومت نے ریونیو کا ہدف 5500ارب روپے مقرر کر دیا۔ جب شارٹ فال آیا تو آئی ایم ایف سے درخواست کرکے اسے کم کرکے 5238ارب روپے کر دیا گیا۔ اب آٹھ ماہ کے بعد نظرثانی شدہ ہدف کو حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور 200ارب سے زائد کا شارٹ فال ہے۔

وزیراعظم بہت طمطراق سے شبر زیدی کو بطور چیئرمین ایف بی آر لائے تھے لیکن وہ بھی نہ تو ایف بی آر میں اصلاحات لا سکے اور نہ ہی ریونیو کا ہدف پورا کر سکے بلکہ رخصت پر چلے گئے۔ انہوں نے سات جنوری سے انیس جنوری تک رخصت لی تھی۔ انہوں نے دوبارہ جوائننگ دی لیکن 31جنوری کو پھر غیر معینہ مدت تک کیلئے رخصت لے لی۔ تب سے ایف بی آر کی چیئر پرسن عبوری چارج پر کام کر رہے ہیں۔ نواز شریف دور میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو کام کرنے والے ہارون اختر خان نے اچانک ایک دن عمران خان سے ملاقات کرکے انٹری دی۔ وہ دوبارہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو بننے کے خواہش مند ہیں لیکن وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ آڑے آگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہارون اختر کو چیئرمین ایف بی آر بنا دیں لیکن معاون خصوصی نہ بنایا جائے ۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ایف بی آر کی کمان نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس سے قبل جب حماد اظہر کو آٹھ جولائی کو وزیر برائے ریونیو ڈویژن بنایا گیا تھا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے احتجاج پر چوبیس گھنٹے بعد ہی یہ وزارت ان سے لے لی گئی تھی اور انہیں اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ بہرحال ریونیو کا ہدف حاصل کرنا حکومت کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ ملک میں بزنس سر گرمیاں ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکیں۔ سرمایہ کاری بھی سست روی کا شکار ہے۔ کرونا وائرس کا اب نیا ایشو سامنے آگیا ہے جس نے نہ صرف انسانی صحت کے حوالے سے دنیا کو مسائل سے دوچار کر دیا ہے بلکہ اس سے معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ کرونا وائرس پاکستان سمیت دنیا کے94ممالک میں پھیل چکا ہے۔ پاکستان، چین اور ایران کے سرحد پر ہے۔ ان دونوں ملکوں میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت نے ایک دلچسپ انتظامی فیصلہ یہ کیا ہے کہ وفاقی سیکرٹری نیشنل ہیلتھ سروسز ڈویژن ڈاکٹر اللہ بخش ملک کو تبدیل کر کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کو نیا سیکرٹری ہیلتھ سروسز لگایا گیا ہے۔