نینو ٹیکنالوجی...!

March 16, 2020

حذیفہ احمد

آج دنیا جدید سے جدید تر ہوتی چلی جارہی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی نے نہایت تیزی سے ترقی کی ہے اور نئی نئی اشیاء انسان کو مہیا کی ہیں۔ انسان کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے ہزاروں سہولتیں استعمال کر رہا ہے اور بہت سارے کام منٹوں اور سیکنڈوں میں ہو جاتے ہیں ۔اس جدید دور میں تیزی سے مقبول ہونے والی ٹیکنالو جی نینو ٹیکنالوجی ہے۔چند برسوں میںاس ٹیکنالوجی نے جس رفتار سے ترقی کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مستقبل میں کیا روپ دھارے گی۔

نینو ٹیکنالوجی مادّے کی نینواسکیل پر جوڑ توڑ کوکہتے ہیں۔ نینو سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو سوئی کی نوک سے تقریباً ایک ملین گنا چھوٹی ہوتی ہیں۔ اگر ہم تین یا چار اٹیمز کو ایک قطار میں رکھ کر اس قطار کی لمبائی ناپیں تو وہ ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوگی جسے ہم نینو میٹر کہتے ہیں ۔اس لیے ا گر ہم ایسی مادّی اشیاء ایجاد کریں جن میں اٹیم کو ایک مقر ر ہ جگہ پر نصب کریں تودرحقیقت یہ ہی نینو ٹیکنالوجی ہے ۔

بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو انقلابی ایجادات ہوں گی، ان میں سے بہت سی نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوں گی ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میںجو انقلاب آیا تھا ،اکیسویں صدی میں نینو ٹیکنالوجی اس سےبھی بڑا انقلا ب لائے گی ۔ماہرین کے مطابق نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہر ٹیکنالوجی بدل سکتی ہے ۔اس کا مستقبل بہت ہی روشن نظر آرہا ہے ۔

اس ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والا خام مال در اصل وہ سا ر ی اشیاء ہیں جو جان داروں اور بے جان اشیاء کی پیدائش میں خاص بلڈنگ بلاک یا مکان میں استعمال ہونے والی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نینو میں مادّے کا استعمال بہت ہی چھوٹی سطح پر ہوتا ہے۔ ایک نینو میٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے۔ یعنی ہائیڈروجن کے دس ایٹم ایک کے بعد ایک جوڑدیں تو وہ ایک نینو میٹر ہوگا۔ ایک ڈی این اے مالیکیول ڈھائی نینو میڑکا ہوتا ہے ۔خون کا ایک خلیہ پانچ ہزار نینو میٹر کا ہوتا ہے اور انسان کے ایک بال کی موٹائی 80ہزار نینو میٹر ہوتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نینو انجینئرنگ میں کس طرح انتہائی چھو ٹی سطح پر کام ہوتا ہے۔

نینو میں نہ صرف مادّے کا انتہائی چھوٹا سائز ہوتا ہے بلکہ اس کی صفات بھی بدل جاتی ہیں۔ تابنے کو نینو کے درجے پر لانے پر وہ اتنا لچک دار ہوجاتا ہے کہ کمرے کی درجۂ حر ا ر ت پر ہی اسے کھینچ کر عام تانبے کے مقابلے میں پچاس گنا لمبا تار بنایا جاسکتا ہے۔نینو کے درجے پر سیدھی سادی اور بے ضرر اشیاء بھی بہت زہریلی ہوسکتی ہیں۔اس کے ذر یعے جان دار خلیوں اور مادّوں کو بے جان ایٹمز کے ساتھ جوڑ کر کئی اشیاء بنائی جارہی ہیں۔

ان حالات میں ماہرین کی جانب سےیہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس طرح سے بنی ادویات یا کریم جسم کے خلیوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کرسکتی ہے،ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہے یا بلڈ برین بیریئر کو ختم کرسکتی ہے،تاہم دماغ اور خون کے درمیان موجود اس سرحد کو پار کرنا ادویات کے لیےمشکل ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءاور ادویات میں اس ٹیکنالوجی کااستعمال ہونے پرجہاں بہت سے افراد خوش ہیں، وہیں سائنس دانوں اورماہرین ماحولیات کو فکر ہورہی ہے۔ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی جتنی زیادہ طاقت ور ہوتی جائے گی، انسانی معاشرے پر اس کے اثرات بھی اتنے ہی ہمہ گیر ہوتے جائیں گے۔

اسٹین فورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر پال سیفو کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم نینو ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پالیسیاں وضع کریں۔ان کا خیال ہے کہ پچاس برسوں میں ہمیں ایٹم بم اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے جو سبق ملے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ ہم نے پہلے ایٹم بم بنایا اور پھر ضابطے بنائے، تا کہ لوگ اندھا دھند بم برسانا شروع نہ کر دیں۔نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔ لیکن یہ تمام باتیں جاننے کے باوجود نینو ٹیکنالوجی کو اہمیت دی جا رہی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے نقصانات کے مقابلے میں فائدے زیادہ ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق نینو ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کے لیے نئے قوانین بنانا ضروری ہو گیا ہے۔نینوسے مراد ایسی اشیاء ہیں جو سوئی کی نوک سے تقریباً ایک ملین گنا چھوٹی ہوتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آنے والے برسوںمیں اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آجائیں گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صرف چند برس بعدتین دن میں ختم ہوجانے والی بیٹریزپر لوگ حیران ہوں گے ،کیوں کہ نینو ٹیکنا لو جی کی وجہ سے کئی سال تک چلنے والی بیٹریزبنائی جا چکی ہوںگی۔

امریکا کی ایم آئی ٹی یونورسٹی میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چند برسوں میں نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکی فوجیوں کے لیے سامان ایک سے دوسری جگہ پہنچانا آسان ہو جائےگا۔ جہاں اس وقت ایک فوجی کو 10 یا 15 کلو گرام کا بوجھ اٹھا کر چلنا پڑتا ہے،وہاں چند برس بعد یہ صرف 10 یا 15 گرام رہ جائےگا۔رائل سوسائٹی اینڈ رائل اکیڈمی آف انجینئرنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق نینوٹیکنالوجی سے انسانیت کو بہت فائدے ہو سکتے ہیں۔تاہم رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ اس کے کچھ مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں، خاص طور پر بہت ہی چھوٹی اشیاء یانینو ٹیوب پارٹیکلز جو سانس لیتے وقت انسان کے جسم میں جا سکتے ہیں۔نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے جوہروں اور سالموں کا استعمال کرکے مختلف اشیاء کو غیر معمولی کردار دیے جا سکتے ہیں۔

رائل سو سائٹی اینڈ رائل اکیڈمی آف انجینئرنگ کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ نینو پارٹیکلز اورنینو ٹیوبز کو برطانوی اور یورپی قوانین کے تحت نئی کیمیائی اشیاء کا درجہ دیا جانا چاہیے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان نہایت ہی چھوٹی اشیاء کو روزمرہ استعمال کی اشیاء میںشامل کرنے سے پہلے آزادانہ سائنسی حفاظتی کمیٹی سے ان کی تصدیق ہونی چاہیے۔اس رپورٹ میںنینوٹیکنالوجی سے ماحولیات، انسانی صحت اور حفاظت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

اس ٹیکنالوجی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ طبی اور صنعتی تحقیق کے لیے نہایت ہی مفید ثابت ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ نہایت ہی چھوٹے درجے پر اشیاء کے غیر معمولی کردار کو بہتر مشینیں بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے،مگر اس سائنس کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔بعض افراد کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے وائرس سے بھی چھوٹی مشینیں دنیا پر قبضہ کر کے اسے تباہ کر دیں گی۔ ماہرین کے مطابق ایسی باتیں بالکل غلط اور خیالی ہیں۔