چند ادیبوں کی عجیب و غریب عادات

March 18, 2020

شاہد محمد شاہد

ہر دور کا ادب اپنے عہد کا آ ئینہ ہوتا ہے۔ کامیاب ادیب اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی تحریروں میں اپنے اردگرد پیش رُونما ہونے والے واقعات، معاشرتی رویوں اور بدلتے رجحانات کی تہذیبی اقدار اور طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھرپور عکاسی کرے۔ شاید اسی لیے ادیب کو اپنے عہد کا حقیقی عکاس سمجھا جاتا ہے۔ ادیب اور قاری کا رشتہ اسی صورت میں مستحکم ہو سکتا ہے جب پڑھنے والے کو اس کی تحریروں میں اپنی زندگی کی تصویر نظر آئے اور وہ ان تحریروں کو اپنے دل کی آواز سمجھے۔

وہ لوگ جو ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں اور مطالعے سے جن کو خاص شغف ہوتا ہے وہ یقینا مشہور و معروف ادیبوں کی کتابوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتےہوں گے۔ لیکن لکھتے وقت یہ بڑے ادیب جو عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں، ان سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے زیرِ نظر مضمون میں ہم ان چند مشہور ادیبوں کے متعلق جاننے کی کوشش کریںگے جو بڑے انوکھے انداز سے اپنے ادبی شہ پارے تخلیق کرتے تھے۔جو لکھتے وقت نہایت منفرد اور دلچسپ انداز اختیار کرتے تھے اور عام قاری بھی یقینا جاننا چاہتا ہے کہ اُس کا پسندیدہ ادیب کیسے اتنی منفرد و شاہکار تحریریں تخلیق کر ڈالتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

اُردو کے مشہور فسانہ نگار سعادت حسن منٹو لکھتے وقت صوفے پر بیٹھ کر دونوں گھٹنے سکیڑ لیتے اور ایک چھوٹی سی پینسل سے لکھتے۔

افسانہ شروع کرنے سے پہلے وہ 786ضرور لکھتے تھے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔

کرشن چندر

اُردو کے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار کرشن چندر تنہائی میں کمرا بند کرکے لکھتے تھے۔ ایک بار ان کی بیگم نے چپکے سے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کرشن چندر اردگرد سے بے خبر اپنے لکھنے کے پیڈ پر جھکے ہوئے تھے۔

اس لمحے ان کا چہرہ بہت گمبھیر، بھیانک اور اجنبی سا لگا، تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں قلم خنجر کی طرح نظر آرہا تھا۔کچھ دیر بعد کرشن چندر کمرے سے نکلے اور سیدھے کھانے کی میز کی طرف آئے۔اس وقت ان کا چہرہ پُرسکون،تازہ اور بہت معصوم تھا۔

وکٹر ہیوگو

فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کی یہ عادت تھی کہ وہ لکھتے وقت سیدھے کھڑے ہوجاتے اور لکھنے کے لیے اپنے کندھے جتنی اونچی میز (ڈیسک)استعمال کرتے۔ ونسٹن چرچل بھی ابتدا میں لکھتے وقت اسی قسم کا انداز اپناتے تھے۔

فرانسیسی ناول نویس الیگزینڈر ڈومالکھتے وقت لیموں کے علاوہ اور کسی پھل کا مشروب نہیں پیتے تھے۔وہ مضامین لکھتے وقت گلابی کاغذ، شاعری پیلے کاغذ اور ناول کے لیے نیلے رنگ کا کاغذ اِستعمال کرتے تھے۔

اُردو کے منفرد اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن ہمیشہ کھڑے ہوکر لکھا کرتے تھے۔

آئرلینڈ کے مشہور ناول نگار جیمز جوائس نے اپنی تمام تحریریں بستر پر اُلٹے لیٹ کر لکھیں۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں اس طریقے سے لکھتے ہوئے آرام محسوس کرتا ہوں۔‘‘

حکیم محمد سعید

حکیم محمد سعید عام طور پر رَف لکھتے وقت اشتہارات کے پچھلے حصے کا اِستعمال کرتے تھے۔ یہ اشتہارات مختلف اخبارات میں ہوتے تھے یا عموماً ایڈورٹائزنگ کے لیے لوگ ان کا اِستعمال کرتے تھے۔ حکیم صاحب کے بقول۔’’ یہ قوم ابھی اتنی امیر نہیں ہوئی کہ بہترین کاغذ کا اِستعمال کرسکے۔‘‘ حالانکہ حکیم سعید کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن اُن کی یہ بات اِس قوم کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دیتی ضرور نظر آتی ہے۔

کئی ادیب و شاعر لکھتے وقت سگریٹ کا اِستعمال کرتے تھے کیونکہ اُن کے مطابق سگریٹ اُن کے دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ حالانکہ اسی سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ مہلک بیماریوں میں مبتلا رہے۔

میں ایک بُک سٹال پر کھڑا تھا۔اسی دوران ایک شخص سے مختلف ادیبوں کے حوالے سے بات چیت شروع ہوگئی۔ جب اُسے پتا چلا کہ میں لکھتا ہوں، تو اُس نے سگریٹ سُلگائی اور مجھے آفر کی۔ جب میں نے کہا بھائی صاحب میں سگریٹ نہیں پیتا، تو کہنے لگا۔’’حیرت ہے، آپ لکھتے ہیں، مگر سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘

اسی طرح بعض ادیب لکھتے ہوئے چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشہور ادیب ایڈگر رائس اپنی دلچسپ اور چونکا دینے والی کہانیاںچائے کی بے شمار پیالیاں پی کر لکھتے تھے۔ فرانسیسی ادیب بالزاک کافی پیتے تھے۔ وہ آدھی رات سے لے کر اگلے دن کی دوپہر تک مسلسل لکھا کرتے تھے۔ اس دوران وہ کافی کی لاتعداد پیالیا ں پی جاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے مذاقاً کہا تھا۔ ’’میں کافی کی دس ہزار پیالیاں پی کر مروں گا۔‘‘

بعض ادیب ایسے بھی گزرے ہیں جو لکھنے کے دوران اپنے قریب سیب یا شہد رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیب یا شہد کی خوشبو سونگھنے سے ان کے خیالات کو تحریک ملتی تھی۔

ایک زمانہ تھا، جب ادیب اتنے نازک مزاج ہوتے تھے کہ بلی کی میائوں میائوں اور مُرغ کی ککڑوں کوں سے پریشان ہوجاتے اور ایک دم ان کے قلم رُک جاتے۔ آپ اسے ملکہ وکٹوریہ کا دور کہہ سکتے ہیں، تاہم آج کے بیشتر ادیب لکھتے وقت اردگرد ہلکا پھلکا شور گوارا کرلیتے ہیں، شاید وہ شور کے عادی ہوگئے ہیں۔

عصمت چغتائی

اُردو کی مشہور افسانہ نگار، ڈراما نگار عصمت چغتائی اوندھی لیٹ کرلکھتی تھیں اور لکھتے ہوئے عموماً برف کی ڈلیاں چباتی رہتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈلیاں چپانے سے میرے ذہن میں نت نئے خیالات آتے ہیں۔

برطانیہ کے معروف ادیب کومپٹن میکنزی لکھتے وقت کلاسیکی موسیقی کی دُھنیں سُنا کرتے تھے۔ میکنزی کا کہنا تھا کہ ایسی موسیقی خیالات کو توانائی بخشتی ہے۔

مشہور ادیب ڈیوما لکھتے ہوئے ایک اونچی لمبی ٹوپی، پھول دار جاپانی چوغے کے ساتھ پہنتے۔ وہ کہتے تھے:

’’میرے آدھے خیالات اس ٹوپی کے اندر ہوتے ہیں اور آدھے اِس چوغے میں، جو میں روحانی مناظر لکھتے وقت پہنتا ہوں۔‘‘

ایڈگرایلن

مختصر افسانے کے بانی مشہور مصنف ایڈگرایلن پو کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ لکھتے وقت اکثر اپنی پالتوبلی کو کندھے پر بٹھا لیتے تھے۔