وچ رانجھا یار پھرے

March 21, 2020

پاکستان ایک عجیب خطۂ زمین ہے۔ مٹی کی کرامت نے خاکی ابدان میں وہ قوتِ مدافعت پیدا کر دی ہے جو طوفانوں کو بھی للکارنے سے باز نہ آئے۔ ازل سے جیت کے جھولے میں سرشار لوگ مصیبت کے سامنے ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتے، زندہ رہنے کی خواہش مضمحل وجود کو ہتھیار پھینکنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ برداشت کے کڑے امتحان پاس کرکے آگے بڑھنے کا اشارہ دیتی ہے۔

پچھلے کئی سالوں سے ہماری قوم نے اتنے بڑے بڑے کرب جھیلے، زخم کھائے، دہشت گردی کے وار بھی سہے اور دنیا کے طعنے بھی مگر جینا ترک نہ کیا، ہمت نہ ہاری، حتیٰ کہ ہمسایہ ممالک کی طرف سے ملنے والی سنگین دھمکیوں کو بھی ہم نے یوں مذاق اور جگتوں کی مار دی کہ ڈرانے والا خود خوفزدہ ہوکر چپ ہو گیا۔

مزاح اور زندہ دلی دلیر اور زندہ جذبوں والی قوموں کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ یہی جذبہ قوموں کا مورال بلند کرکے انہیں سرفراز کرتا ہے۔ ستر سال کی مختصر مگر ہنگامہ خیز تاریخ میں ہم نے بارہا ثابت کیا کہ ہم زندگی کی دشوار گزار راہوں پر گر کر اٹھنے، سنبھلنے اور دوڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہمیں عام روٹین کے پُرسکون شب و روز کم ہی میسر آتے ہیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو ہم اپنی کاوش سے کوئی ہنگامہ برپا کر لیتے ہیں کیونکہ لڑنا ہماری فطرت میں ہے کوئی اور نہ ملے تو اپنی ذات سے جنگ چھیڑ لیتے ہیں۔

کچھ سال قبل ایک چھوٹے سے مچھر نے ہماری نیندیں حرام کرنے کی کوشش کی تو ہم نے اس کا یوں ستیاناس کیا کہ دیگر متاثرہ ممالک حیران رہ گئے۔ آج کل ہمیں کورونا وائرس کا سامنا ہے۔

یہ بہت چھوٹا ہے، نظر نہیں آتا ورنہ اب تک کچل دیا گیا ہوتا... مگر ایسا وائرس جس نے دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، کھیل کے میدان، پارکس، بازار حتیٰ کہ عبادت گاہیں بند کرا دیں۔

وہ سڑکیں جن پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی، وہ بازار جن میں ہر وقت لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا تھا، وہاں پہ گہرے سناٹے کا عالم ہے جیسے کسی ساحر نے سحر پھونک کر سب منظر ساکت کر دیا ہو۔ موت کے خوف نے ہر ذی روح کو گھر کی چار دیواری بلکہ کمرے تک محدود اور مقید کر دیا ہے۔

سانسوں کی تسبیح کو ذرا سی آنچ آئی تو موتی چھن چھن گرنے لگیں گے۔ دھاگا بھی مضبوط مگر دوبارہ گانٹھ دینا ناممکن۔ جب اس طرح کی تباہی آتی ہے تو اپنے ساتھ خوف کی گہری دھند لے کر آتی ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو دنیا کی معیشتیں جیب میں ڈالے پھرتی تھیں، اس وائرس کے سامنے بےبس ہو گئیں۔

یورپ نے شروع میں تجاہل سے کام لیا تو یہ کنٹرول سے باہر ہوگیا۔ بہت سارے وسائل، اختیارات اور معاملات کی سمجھ بوجھ کے باوجود ابھی تک حالات بہتری کی طرف مائل نہیں جبکہ اس وبا سے اچانک شدید طور پر متاثر ہونے والے چین نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ وہ ایک بہت ہی دلیر اور دانشور، کمٹمنٹ کی پکی قوم ہے۔

انہوں نے مشکل گھڑی جس تدبیر سے جھیلی اور اس کا تدارک کرنے کیلئے شب و روز ایک کر دیے۔ مگر اس معاملے میں بھی ہم دنیا سے بہت آگے ہیں۔ مشورے، صلاح اور احتیاط کی بات کریں تو ہر دوسرا فرد ڈاکٹر سے زیادہ سیانا دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹوٹکوں، وظیفوں اور اصلاحی اعلانات کی بھرمار ہے۔

دانشور، ادیب، فنکار، ٹی وی، ریڈیو اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لوگوں کو بچاؤ کے طریقے بتا کر فرض ادا کر رہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان والے کافی متحرک ہیں۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی چال میں بھی تیزی اور پھرتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔

وزیراعظم کی تقریر ایک درد مند دل کی آواز اور اپنے لوگوں کو اپنائیت سے معاملات کی خبر دیتی دکھائی اور سنائی دی۔ بلاول بھٹو نے تعاون اور خیر کے کلمات ادا کرکے شاباش وصول کی، مریم نواز نے کورونا کے متاثرین کیلئے دکھ اور ملک کیلئے دعا کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر تنقید نہ کرکے مثبت سوچ کو آگے بڑھایا۔ ملک اور لوگوں پر پڑنے والی افتاد سے نجات کیلئے پوری قوم کو ایک ہونے کی ضرورت ہے۔

سیاسی اختلافات بھلے ختم نہ کریں، کچھ دیر کے لیے لپیٹ کر فراموشی والے دراز میں رکھ دیں۔ زندگی بچانا زیادہ اہم اور بڑا فریضہ ہے۔ تماشائی بن کر کمنٹری کرنے کے بجائے کام کرنے والی ٹیم کا حصہ بننا ضروری ہے، بھلے وہ دعا اور صلاح کی سطح تک ہی کیوں نہ ہو۔

وبا نے بڑے بڑے امیر ملکوں کا بھرکس نکال دیا ہے، ایسے میں ڈگمگاتی معیشت کے لیے کیا خطرہ ہو سکتا ہے اسے بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یقیناً وزیراعظم کے خدشات بھی اسی طرف پیش رفت کرتے ہیں۔

اتنا سکوت، خوف اور خاموشی دنیا نے شاید ہی محسوس کی ہو۔ فطرت کی طرف سے سرپٹ بھاگتی انسان کی نفسانی خواہشات کے رستے میں بیریئر لگا کر انسان کو سوچنے کا موقع دیا ہے، اس وقفے نے موت اور دنیا کی حقیقت بھی عیاں کر دی ہے۔

جان جانے والی شے ہے، ذرا سی ٹھوکر پر بھی سانس بند ہو سکتا ہے اور ذرا سا وائرس بھی تنفس کے رستے داخل ہوکر ذات کا محل مسمار کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس وبا سے نجات پانے کے بعد مصروف اور خود سے دور انسان کچھ دیر کیلئے ہی سہی، پیچھے رہ جانے والی انسانی قدروں کی سمت ریورس گیئر لگائے اور دولت و طاقت کی دوڑ سے نکل کر دھیرے چلنا شروع کر دے۔

فرقے، زبان، رنگ، مذہب اور ملکوں کی سطح پر موجود امیر غریب، طاقتور اور کمزور کی جو تفریق اس وبا نے ختم کردی ہے، اسے تسلیم کرکے زندگی کے نئے ضابطے تشکیل کرے۔