کورونا وائرس اور عالمی معیشت کو لاحق خطرات

March 26, 2020

جیسے جیسے دُنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے عالمی معیشت کی بدحالی کے خدشات نمایاں ہو رہے ہیں۔ ہم یہ بات جانتےہیں کہ کسی بھی ملک کی معیشت یا پھر دُنیا بھر کی معیشت کے چلنے کے لئے کاروبارِ زندگی کا چلنا ضروری ہے یعنی یہ کہ لوگ پیداواری عمل میں شامل ہوں، سب سے پہلے تو غذائی اشیاء کی پیداوار جاری رہے اور پھر اُن کی ترسیل اور خرید و فروخت میں رُکاوٹ نہ ہو۔ اس کے بعد صنعتی شعبے کا درجہ آتا ہے جہاں صنعتوں اور کارخانوں میں دیگر ضروریاتِ زندگی تیارکی جاتی ہیں اور پھر سروسز سیکٹر یا خدمات کا شعبہ ہے جس میں تعلیمی ادارے، صحت کے شعبے، بجلی و پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا مسئلہ اور ٹرانسپورٹ یا ذرائع نقل و حمل کے شعبے شامل ہیں۔

پچھلے تین ماہ میں یعنی اس سال کے آغاز سے ہی کورونا کے باعث معیشت پر منفی اثرات کی باتیں کی جا رہی ہیں جنوری میں تو صرف چین کی بابت خدشات ظاہر کئے گئے کہ دُنیا کی دُوسری بڑی معیشت کساد بازاری اور سُست روی کا شکار ہو جائے گی، پھر فروری میں جب ایران اور جنوبی کوریا بھی کورونا کی لپیٹ میں آئے تو ایشیا کی معیشت خطرے میں نظر آنے لگی۔مگر مارچ کے مہینے میں جب یہ وائرس یورپ اور امریکا میں پھیلا تو لامحالہ اس کا اثر پوری دُنیا کی معیشتوں پر واضح نظر آنے لگا امریکا، چین، جرمنی، اٹلی، فرانس اور برطانیہ وغیرہ دُنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان میں کاروبار زندگی کا بند ہونا تمام دُنیا کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اسٹاک مارکیٹ یعنی بازارِ حصص دُنیا بھر کی معیشتوں کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ دُنیاکے تمام ممالک میں بازارِ حصص موجود نہیں تھے، خاص طور پر 1990 سے قبل کی سوشلسٹ معیشتوں پر بازارِ حصص کے اثرات زیادہ نہیں پڑتے تھے کیونکہ وہاں تمام کاروبار، صنعتیں اور ساتھ ہی خدمات و زراعت کے شعبے سب ریاستی ملکیت میں ہوتے تھے۔ اس لئے معاشی اُتار چڑھائو کے اثرات ریاست پر تو پڑتے تھے مگر عوام تک اس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا تھا۔

بازار حصص دراصل سرمایہ دارانہ معیشت کی آزاد منڈی میں پھلتے پھولتے ہیں اور اگر نفع عوام میں تقسیم کرتے ہیں تو نقصانات بھی تمام لوگوں کو بھگتنے پڑتے ہیں بس فرق صرف یہ ہے کہ نفع حصے داروں میں تقسیم ہوتا ہے اور نقصان سب میں۔

اب کورونا وائرس کی تباہ کاری سے بازارِ حصص کے بیٹھنے سے یہ ہوگا کہ صارفین کے پاس بھی رقوم یا دولت کم ہو گی جس کے باعث کمپنیاں بھی دبائو کا شکار ہوں گی۔ یعنی بازارِ حصص خود مسائل پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ زیادہ تر مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ جب بیماریاں اور اموات ہوں گی تو کاروبار نہیں چلیں گے جس کے باعث بازارِ حصص میں زوال آئے گا کیونکہ کاروبار نہیں چلیں گے تو نفع نہیں ہوگا جس پر بازارِ حصص کا دارومدار ہے۔

اب کورونا وائرس کے باعث سب سے پہلے تو دُنیا بھر میں سپلائی چین یعنی اشیاء کی پیداوار اور ترسیل متاثر ہوئی ہے کیونکہ وائرس کے باعث صرف بنیادی یا ضروری ترین اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور اُن کی بھی ترسیل کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

ریستوران، ہوٹل، دُکانیں اور بازار بند ہیں۔ یہی سب سے بڑا منفی اثر ہے اور اس کے باعث منڈی میں طلب بہت ہی کم ہو جاتی ہے جس سے ملازمتیں ختم ہونے لگتی ہیں۔ اگر رفاہی اور فلاحی ریاست ہو تو وہ اپنے عوام کو ان صدموں سے بچاتی ہیں لیکن زیادہ تر ترقّی پذیر ریاستیں چونکہ اسلحہ اور گولہ بارود پر زیادہ خرچ کرتی رہتی ہیں اس لئے اُن کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں بچتا اور جب کورونا وائرس جیسی کوئی وباء پھیلتی ہے تو ایسی ریاستیں عوام سے معذرت کر لیتی ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

لیکن یہی ریاستیں بم اور میزائل بنانے سے معذرت نہیں کرتیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی طور پر ایسی ریاستیں دھڑا دھڑ میزائل داغ رہی ہوتی ہیں ۔مثال کے طور پر بھارت، پاکستان، ایران، شمالی کوریا اور برما وغیرہ کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں کے حکمران جنگی تیاریوں میں بڑے طاق ہوتے ہیں اور بار بار اعلان کرتے ہیں کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

کورونا وائرس کی وباء کے باعث دُنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات غریب اور چھوٹے موٹے کام کرنے والے ہیں۔ اب بین الاقوامی طور پر ایک طرف تو اس وباء سے تیار کھانے فراہم کرنے والے چھوٹے ہوٹل، ڈھابے، کیفے اور خود چھابڑی لگا کر کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ لوگ گھروں میں خود پکا کر کھانے پر مجبور ہیں۔ دُوسری طرف ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل کی خدمات فراہم کرنے والے، رکشے اور گاڑیاں چلانے والے سب متاثر ہوں گے۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ زیادہ تر سرمایہ دار کمپنیاں اپنے ملازموں کو ڈیلی ویجز یا دیہاڑی پر رکھتے ہیں اور بحران میں انہیں فارغ کر دیتی ہیں اور سرمایہ دارانہ معیشت عوام کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ اسی طرح بجلی اور پانی کا کام کرنے والے الیکٹریشن، پلمبر ،لکڑی اور لوہے کا کام کرنے والے بڑھئی، لوہار اور پھر نان بائی، حلوائی سب فارغ ہو جاتے ہیں۔

عالمی طور پر کارخانے اور صنعتیں بند کر دی گئی ہیں کیونکہ وائرس لگنے کا خطرہ ہے۔اس وقت اندازوں کے مطابق دُنیا کی ایک چوتھائی معیشت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے اور باقی تین چوتھائی بھی بحران میں داخل ہونے والی ہے۔ صرف صحت کے شعبے میں سرکاری سرگرمیاں جاری ہیں مگر اس سے پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ جانیں بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔اندازوں کے مطابق اس وباء کی وجہ سے آئندہ تین ماہ تو مکمل معاشی تباہی دُنیا کے سامنے ہے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ جولائی کے بعد اموات میں کمی ہوگی تو پھر معاشی سرگرمیاں بحال ہوں گی مگر اس میں بھی کم از کم چھ ماہ لگیں گے یعنی یہ پورا سال معاشی طور پر پچھلے سال کے مقابلے میں بہت بدتر رہے گا ۔ 2022ء کے بعد رفتہ رفتہ معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے مگرپچھلی صورت حال کو پہنچنے میں کئی برس لگیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس وباء کے منفی اثرات کے نتیجے میں معیشت کو عالمی طور پر کتنا نقصان ہوگا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ حتمی طور پر کتنے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں ۔

23 مارچ تک کے اندازوں کے مطابق عالمی معیشت میں پانچ سے دس فی صد تک سکڑائو آ سکتا ہے، جس کے لئے عالمی معیشتوں کو سرکاری سطح پر بڑی کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے یعنی اب عالمی طور پر یہ فیصلے کرنے ہوں گے کہ آیا ہم اسلحہ اور گولے بارود پر خرچ کر کے عوام کو بچا سکتے ہیں یا صحت اور تعلیم پر خرچ کر کے۔ مثال کےطور پر جن ممالک میں وینٹی لیٹر کی تعداد چند سو ہے وہاں ٹینکوں، توپوں،میزائلوں اور بموں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ بندوقوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

اب دُنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم نام نہاد نظریات اور جھوٹی اَنا کے لئے اپنے پڑوسیوں سے لڑتے بھڑتے رہیں اور وہ وسائل جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونے چاہئیں انہیں جنگی تیاریوں میں جھونکتے رہیں گے یا کچھ ہوش کے ناخن لیں گے۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کاحال سب سے خراب نظر آتا ہے۔ ترکی، شام اور عراق سے لے کر ایران، سعودی عرب اور یمن تک سب کسی نہ کسی طرح کی لڑائی کا شکار ہیں یا کر دیئے گئے ہیں مگر اس سلسلے میں صرف وبائوں کو یا بیرونی طاقتوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

ہمارے حکمران عوام کی بیماریوں کا نہ سوچتے ہیں نہ اُن کے تدارک کے لئے مناسب انتظامات رکھتے ہیں ورنہ ہمارے پاس نہ ادویات کی کمی ہوتی اور نہ شفاخانوں کی مگر ہمیں تو عوام کو روزی روزگار دینے سے زیادہ دیگر مشغلوں میں دلچسپی ہے۔ کورونا تو آیا اور چلا جائے گا مگر اس کے اندر جو عالمی برادری کے لئے اسباق پوشیدہ ہیں وہ سب کو سیکھنے چاہئیں ۔