قصہ گوئی کی روایت

March 25, 2020

نسیم احمد نسیم

اردو میں قصہ گوئی کی روایت بہت قدیم ہے۔ دکن میں چودہویں سے لے کر اٹھارہویں صدی تک نظم و نثر پر مبنی تخلیقات کا سراغ ملتاہے۔ اس دوران جوکتب ورسائل شائع ہوئےپر وہ اردو کی اولین تصنیفات قرار پائے۔ ان چار سو برسوں کے درمیان جوکتابیں تصنیف ہوئیں وہ زیادہ تر مذہبی، اخلاقی اوردینی نوعیت کی تھیں۔ ان میں تصوف، اخلاقیات اور مذہبی و دینی امور پر زیادہ زور ملتا ہے۔ اس دور میں خیالی یا اختراعی قصوں کا رواج بہت کم تھا۔ صرف دو تصانیف”سب رس“ اور ”طوطی نامہ“ ایسی ملتی ہیں جن میں قصے کہانیوں کا پتہ چلتاہے۔ ان میں بھی اکثرمقامات پر مذہبی اور اخلاقی رجحان و مزاج کا عمل دخل تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آغا زمیں شمالی ہند اردو کے اہم مرکز کے طور پرابھرا۔ لیکن یہاں بھی حسب روایت قصوں میں مقصدی اورتعمیری رجحان قائم رہا۔

اردو میں قدیم قصہ گوئی کے ابتدائی اور باضابطہ نمونوں میں ”سب رس“ (1935) کو اولیت کا مقام حاصل ہوا۔ اس میں کہانی پن کی خصوصیت بھی موجود ہے۔ اس لیے قصے کی دلچسپی اخیر تک برقراررہتی ہے۔ میرامن نے ”باغ وبہار“ کی تالیف کی اورشہرت کی بلندی پر پہنچے۔ باغ و بہار پہلی دفعہ 1803ءمیں منظرعام پر آئی۔ میرامن نے اس کتاب کو اس حد تک دلچسپ اور مقبول بنادیا کہ اس کے ترجمے انگریزی، فرانسیسی، پرتگالی اور لاطینی جیسی اہم زبانون میں ہوئے۔ اس قصے کا ایک اقتباس ذیل پیش کیاجاتاہے، تاکہ اردو میں قصے کی روایت کے آغاز اور ارتقا کی بابت واقفیت ہوسکے:

”کہتے ہیں کہ ایک بزرگ نے جب اپنی زندگی کی امانت اجل کے فرشتے کو سونپی اور اسباب اپنی ہستی کا اس سرائے فانی سے منزل باقی میں پہنچایاسو شخص نے انہیںخواب میں دیکھا اور پوچھا کہ مرنے کے بعد تم پر کیا کیا واردات گذری۔‘‘جواب دیا ،کہ’’ ایک مدت تئیں عذاب عقاب کے پنجے میں سختی کے شاہین کے چنگل میں گرفتار تھا.... یک بارگی کریم کے کرم سے اس حالت سے چھٹکارا ہوا۔ سائل نے پھر سوال کیا۔’’ اس کا کیا سبب ہے۔‘‘ بولے کہ ایک میدان میں مسافر خانہ بنایاتھا شاید کوئی غریب راہ چلتا جیٹھ کے دنوں دوپہر کی دھوپ میں تونسا ہوا اس کے سایہ میں آن کر بیٹھا۔ .... خوش ہوکر نہایت عاجزی سے بدل دعا کی.... اس کی دعا کا تیر قبولیت کے نشانہ پر درست بیٹھا ۔ میری ا ٓمرزش ہوئی۔ اور جہنم کے گڈھے سے نکال کر بہشت کے غرفے میں رہنے کا حکم ہوا۔“

”باغ وبہار“ کی اس پرکشش اور سہل تالیف کے بعدحیدر نجش حیدری کی ’’آرائش محفل ‘‘کو بھی شہرت دوام حاصل ہوئی۔ اس کے قصے بھی نہایت د ل چسپ، سلیس اور روز مرہ کی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ حیدری کی دوسری تصانیف میں”گل مغفرت“ کو نقش آخر کا درجہ حاصل ہے، اس میں واقعات کربلا کو بہت ہی موثر اندا زمیں بیان کیاگیا ہے۔ میر امن اور حیدر بخش حیدری بلاشک وشبہ بڑے قصہ گوتھے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ میرامن چھوٹے چھوٹے جملے، ہندی الاصل الفاظ اور رو زمرہ کو برتنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، جبکہ حیدری عربی ، فارسی کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ۔روزمرہ اور محاورے کا استعمال بھی کم ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک اہم قصہ گوکی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس سلسلے کے اہم قصہ گو شیر علی افسوس بھی تھے، انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں دوران ملازمت ایک کتاب ”باغ اردو‘‘لکھی۔ اس کے بعد ”ہفت گلشن“ بیتال پچیسی اور شکنتلا ،جیسے اہم اور دلچسپ قصے ارد وکے قالب میں ڈھالے گئے۔ اس میں ہفت گلشن کو چھوڑ کر دونوں کتابیں اصلاً سنسکرت میں تھیں اردو میں منتقل ہوکر یہ مقبول ہوئیں۔

اردو میں قصے کی ایک بہت ہی مستحکم اور مقبول روایت داستان امیر حمزہ سے قائم ہوتی ہے۔ اس کے قصے خلیل علی خاں اور عبداللہ بلگرامی نے پہلے پہل ترتیب دئے تھے۔ بعد میں سید تصدق حسین نے اس کونئے سرے سے لکھا۔ وہ فسانہ عجائب کازمانہ تھا۔ فسانہ کی رنگین عبارتوں کی دھوم تھی۔ امیرحمزہ کو تصدق حسین نے شاعرانہ صنعت گری کا عجائب خانہ بنادیا۔ اس کے طول طویل قصوں میں ہندوستانی رسم و رواج اور مختلف احوال و کوائف کو شامل کرکے ہندوستانی عوام کے مزاج کے مطابق بنایا۔ بعد میں اس قصے کو مزید وسعت دے کر”طلسم ہوشربا“ کی متعدد ضخیم جلدیں تیا رکی گئیں۔

اردو کی بڑی اور اہم داستانوں میں ”بوستان خیال“ کا بھی شما رکیاجاتاہے۔ یہ محمد شاہ رنگیلے کے عہد کا قصہ ہے۔ اس کے مصنف میر محمد تقی ہیں۔ اردو میں اس کے پہلے مترجم خواجہ امان دہلوی ہیں لیکن ان کی وفات کے بعدان کے فرزند خواجہ قمر الدین خان نے اسے مکمل کیا۔ بوستان خیال کے ترجمے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں نے اپنے اپنے طور پر کئے۔ تھوڑے سے لب ولہجے اور انداز وآہنگ کے فرق کے ساتھ پوری داستان بہر طور نہایت دلچسپ، تحیر کن اور پرکشش ہے۔ سید نادر علی نے اس داستان میں خلاف تہذیب الفاظ اور واقعات کو حذف کرکے اس طرح بنایا کہ عورتیں بچے سب ہی پڑھ سکیں۔

’بوستان خیال‘ اور’امیر حمزہ‘ وغیرہ کے بعد روایتی قصے کہانیوں کا ایک طویل سلسلہ دکھائی دیتاہے۔ اس قبیل کے دوسرے قصوں میں قصہ گل بکاولی، چہار قصہ، افسانہ ہندی، لیلیٰ مجنوں، قصہ بندگان عالی، حکایت ہائے عجیب وغریب، قصہ بہروز سودا گر، قصہ حیرت افزا، مذہب عشق، قصہ گل وہرمز، قصہ قاضی چور، قصہ پوستی و بھنگی، قصہ چہار باغ ، قصہ رضوان شاہ ، قصہ چتر لیکھا، انوار سہیلی، شگوفہ محبت ، سہراب و رستم وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان قصے کہانیوں کی فی زمانہ کشش اوراہمیت رہی ۔ لیکن اردو میں قدیم قصے کہانیوںکی روایت اس وقت اپنا لبادہ اتار کر نئے دور میں داخل ہوجاتی ہے جب خاص اصلاحی اور تعمیری مقصد حاوی ہوتاہے۔ اس سلسلے کے مصنفین میں ڈپٹی نذیر احمد کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ ڈپٹی نذیر کے بعدان قصوں کاایک واضح مقصد سامنے آتاہے ۔اس کے بعد عبدالحلیم شرر، مرزا ہادی رسو ا، سرسید احمدخاں وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے کہانیوں کی سمت ورفتار کو تبدیل کرنے اور ان کے نئی راہ متعین کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیا۔

مختصر یہ کہ اردو ادب میں قصے کہانیوں کی قدیم روایات کے غائر مطالعے سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ اس قبیل کی تحریریں زیادہ تر دلبستگیِ خاطر اور تفریح طبع کی غرض سے تخلیق کی جاتی تھیں۔ بادشاہ، نوابین ، امرا اور رؤسا وغیرہ کی مبالغہ آمیز تعریف و توصیف، ان کے جھوٹے معاشقے اور معرکے کی طول طویل داستانوں کاایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اور اس کے پس پشت یہ نیت کارفرماتھی ، زبان دانی کا سکہ چل جائے اور مالی اعانت بھی حاصل ہو جائے ۔گویا یہ قصے ایک طرح سے نثر میں قصیدے تھے ،جن کی تان حسن طلب پر ٹوٹتی تھی۔ اس لیے ان قصوں کا کوئی افادی اور دور رس نصب العین نہیں تھا۔ لیکن ادب میں اس لحاظ سے ان قصوں کی اہمیت مسلم قرار پائی کہ ان کے ابتدائی نقوش کو ہی دیکھ کر آئندہ کے قصہ گویوں اور افسانہ نگاروں نے اپنے لیے نئی راہ متعین کی اور اپنے فن پاروں کو خوب سے خوب تربنانے میں کامیاب ہوئے۔ آج اردو کے قدیم قصے ترقی کرکے اس منزل پر پہنچ چکے ہیں، جہاں سے پوری دنیا کا حقیقی مشاہدہ اور تجربہ کیاجاسکتاہے۔ لہٰذا آج قدیم قصے کہانیوں کی افادی اور تعمیری حیثیت جوبھی ہو لیکن ان کی تاریخی حیثیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔