گھبرانا نہیں!

March 25, 2020

انسانوں کے دکھ سانجھے ہیں مگر انسان سمجھتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دینِ فطرت میں قدرتی طور پر قرنطینہ، اعتکاف کی صورت میں ہے، اسے شرعی رتبہ بھی حاصل ہے، اعتکاف میں انسان اپنے اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتا ہے، توبہ کرتا ہے، رحمت طلب کرتا ہے۔ چونکہ انسان سرکش ہے وہ اس طرف آتے ہوئے کتراتا ہے۔ اب کورونا نے انسانوں کو قرنطینہ کی طرف کر دیا ہے۔ ہر کوئی سیلف کورنٹین میں ہے، ایک طرح سے انسان مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ خلوت خانے کھلے ہوئے ہیں، احتیاط لازم ہے مگر یقین رہے کہ ہر ایک کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، ہر ایک کو جانا ہے۔ پچھلے دنوں چکوال میں آباد ہماری برادری کے ایک خاندان میں ایک خاتون کی وفات ہوئی۔ یہ خاتون میرے عزیز ترین دوست چوہدری شاہد کی خالہ بھی تھیں اور ساس بھی۔ چونکہ یہ خاتون جنرل فیض حمید کی والدہ تھیں، اس لئے ملک کے کئی اہم لوگوں کا چکوال آنا ہوا۔

چوہدری شاہد آف لطیفال، جنرل فیض حمید کے خالہ زاد بھائی اور بہنوئی ہیں۔ چکوال، تلہ گنگ پنڈی گھیب اور فتح جنگ ضلع اٹک تک ایک پوری پٹی ہے جہاں مغلوں کے کئی دیہات ہیں۔ اسی سرسبز علاقے میں ایک گائوں لطیفال ہے۔ موٹروے پر نیلہ دلہہ انٹرچینج سے باہر نکلیں تو کوئی بیس بائیس کلو میٹر دور لطیفال ہے، اس کے اردگرد زرخیز زمینیں ہیں۔ اس پٹی میں آباد مغلوں کے مختلف قبائل خود کو چوہدری یا سردار کہلوانا پسند کرتے ہیں جیسے فتح جنگ کے گائوں ڈھرنال کے سردار سلیم حیدر جو وزیر مملکت رہے ہیں، سردار سلیم حیدر، چوہدری نثار علی خان کے قریبی عزیز ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے مغل بھی خود کو سردار لکھتے ہیں جیسے سردار تنویر الیاس۔

لوگوں کو سچ بتانا چاہئے، ہمارے دیہات میں لوگ غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ لطیفال میں بھی ایسا ہی تھا، لوگ برسوں کے مراسم کو نبھاتے ہیں، عہدوں کو نہیں دیکھتے۔ راجہ نذر حسین استال کے فرزند راجہ ثنا تو عہدہ دیکھ کر نہیں آئے تھے۔ راجہ نذر حسین کے ایک صاحبزادے راجہ عظیم الحق منہاس میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو ہیں، راجہ عظیم سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے داماد ہیں۔ یہ سب باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دیہات کے لوگ انسانوں اور برادریوں کی قدر کرتے ہیں، صرف عہدوں سے ملنا ان کا شیوہ نہیں۔ چوہدری خضر حمید کا لطیفال میں زمیندارہ ہے، نجف حمید کی ساری سروس محکمہ مال کی ہے۔پھر مغلوں کی عادات اور بہادری کے کئی قصے ہیں۔ چونکہ کلر کہار میں تخت بابری ہے اس لئے میں بابر کا قصہ بیان کر دیتا ہوں۔

بابر بادشاہ سے ایک روز کسی نے پوچھا کہ آپ نے زندگی میں کونسے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں؟ اس سوال پر بابر بولا ’’صرف ڈھائی کام‘‘ سوال پوچھنے والا، کہنے لگا ’’وہ کونسے؟‘‘ عظیم بادشاہ بابر بتانے لگا ’’ایک دفعہ میں بہت تھکا ہوا تھا، راستے میں آرام کی غرض سے ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا، میں نے گھوڑے کو تھوڑا دور باندھا اور تلوار بھی فاصلے پر رکھ دی، تھکاوٹ کی وجہ سے گہری نیند میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ میری پسلیوں کو کوئی دبا رہا ہے، آنکھ کھولی تو میں نے دیکھا کہ ایک اژدھا میرے جسم کے گرد لپٹا ہوا ہے، میری بانہیں اس کے حصار میں تھیں، اس لئے میں تلوار نہیں پکڑ سکتا تھا۔ میرے منہ کے بالکل سامنے اژدھے کی گردن تھی، میں نے ایک لمحے میں فیصلہ کیا اور اپنے دانتوں سے اژدھے کی گردن کاٹنا شروع کیا، میں اپنے دانتوں سے اسے کاٹتا رہا اور بالآخر میں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی، جونہی شہ رگ کٹی تو اژدھے کا حصار ڈھیلا پڑ گیا، میں نے پہلے اپنا ایک بازو باہر نکالا اور پھر دوسرا۔ جسم کے گرد لپٹے ہوئے اژدھے کو ہٹایا، اپنی تلوار اٹھائی اور گھوڑے پر سوار ہو کر چل پڑا۔ یہ میرا ایک کام ہے۔

میرا دوسرا کام یہ ہے کہ دلّی میں موسم کی شدت کے باعث مجھے خارش کا مرض ہو گیا، میں نے خارش کے باعث دربار لگانا چھوڑ دیا۔ افغانستان میں میرے دشمنوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے معاملے کا پتا کرنے کے لئے ایک مخبر روانہ کیا، جونہی مخبر لاہور پہنچا تو میں نے دربار لگانے کا اعلان کر دیا، جاسوس جب تیسرے دن دلّی پہنچا تو دربار لگا ہوا تھا، دربار میں میرے اپنے بندے زیادہ تھے، جاسوس بھی سامنے تھا، اس دن میں نے خارش کے مرض کے باوجود ریشمی لباس پہنا، میں سخت گرمی میں شاہی ریشمی لباس پہن کر آٹھ گھنٹے تخت پر بیٹھا رہا، میں نے اس دوران خارش بالکل نہ کی، آٹھ گھنٹے کی اس برداشت کو میں اپنا دوسرا بڑا کام سمجھتا ہوں‘‘۔ بابر یہ کہہ کر خاموش ہوا تو پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ آدھا کام؟

بابر نے ہنستے ہنستے کہا ’’آدھا کام، برصغیر فتح کیا‘‘۔

ہم سب کو احتیاط کرنی چاہئے مگر بہادری سے کورونا کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ

انسانوں سے انساں نے کیا ڈرنا ہے

ڈرنا ہے بس ایک خدا سے ڈرنا ہے