بھارت، مقبوضہ کشمیر اور کورونا وائرس

March 31, 2020

میں نے پہلے بھی ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ علم الاعداد کے حساب سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اُس وقت بھارت میں پانچ افراد کی موت ہوئی تھی۔ اب واقعی بھارت میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگرچہ مودی سرکار نے لوگوں کے باہر نکلنے اور جمع ہونے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان پابندیوں پر بھارتی عوام سے گزشتہ روز معذرت بھی کی۔ 21روزہ سخت لاک ڈائون کے گزشتہ چھ دنوں کے دوران کورونا وائرس سے مصدقہ متاثرہ افراد کی تعداد تیرہ سو بتائی گئی ہے جبکہ اموات کی تعداد 32تک پہنچ گئی ہے۔ متاثرہ افراد میں 48غیرملکی بھی شامل ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق متاثرہ اور ہلاک ہونیوالوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے لیکن بھارتی وزارتِ صحت متاثرہ افراد اور اموات کی درست تعداد چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ 200افراد میں کورونا کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے۔ اس کے بعد کیرالہ میں 195اور کرناٹک میں متاثرہ افراد کی تعداد 85تک پہنچ چکی ہے۔ دہلی میں مصدقہ متاثرہ افراد کی تعداد 45، گجرات میں 62اور ہریانہ میں 42ہے جن میں 14غیرملکی بھی شامل ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 44بتائی گئی ہے۔ بھارتی پنجاب میں48، راجستھان میں 65اور تامل ناڈو میں 67افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اُتر پردیش میں 68، تلنگانہ میں 78ہو گئی ہے۔ یہ بھارت کی صرف چند ریاستوں کی صورتحال ہے۔

بھارتی حکومت کی تمام تر سخت پابندیوں کے باوجود کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مودی سرکار ہر کام بندوق کے زور پر کرنا چاہتی ہے۔ لوگوں کی آمدورفت پر تو سخت پابندیاں ہیں لیکن بھارتی عوام کو قرنطینہ اور اسپتالوں میں کوئی بھی ایسی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو پاکستان میں عوام کو بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔ بھارت کی آبادی کا بیشتر حصہ غریب بلکہ نہایت غریب افراد پر مشتمل ہے۔ وہ دن کو مزدوری کرکے بھی رات کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتے، اوپر سے لاک ڈائون نے ان کا برا حال کر دیا ہے۔ سرکار کی طرف سے نہ بھارتی عوام کیلئے کسی قسم کی طبی سہولت میسر ہے نہ ہی ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام ہے۔ اگرچہ مودی سرکار نے اس مقصد کیلئے بھاری رقم جاری کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود تاحال بھارتی عوام ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہی تو خدشہ ہے کہ کئی بھارتی شہری بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو جائیں گے۔

مودی سرکار صرف پابندیاں لگانا جانتی ہے۔ موجودہ خطرناک صورتحال میں بھی کسی قسم کا نظم و ضبط نظر نہیں آتا۔ پاکستانی فوج حسبِ روایت اس مشکل میں بھی اپنی قوم کے ساتھ کھڑی ہے۔ قرنطینہ اور طبی سہولتوں کو بہترین نظم و ضبط کے ساتھ عوام تک پہنچانے میں پاک فوج مصروفِ عمل ہے۔ دوسری طرف بھارت میں فوج بھی کہیں نظر نہیں آرہی۔ بھارتی فوج نے اس بدترین بحران میں عوام کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کورونا کے خوف سے چھائونیوں میں بند ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کیا ایسی فوج ملک و قوم کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر سکتی ہے؟ یہ اعزاز صرف افواجِ پاکستان کو حاصل ہے۔موجودہ حکومت بھی عوام کو کورونا سے محفوظ کرنے کیلئے ازحد کوششیں کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے غریب افراد کی مدد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پاک فوج کے ساتھ ساتھ سویلین و فوجی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دن رات قوم کیلئے وقف کیا ہوا ہے۔ اس جنگ میں پاکستانی میڈیا جس میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں شامل ہیں، بھی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستانی میڈیا پوری قوم کو نہ صرف کورونا وائرس سے بچائو اور حفاظتی طریقوں سے مسلسل آگاہ کررہا ہے بلکہ اس سے متعلق قومی اور بین الاقوامی صورتحال سے بھی باخبر رکھ رہا ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں صورتحال نہایت خراب ہے۔ اننت ناگ، بارہ مولا، سرینگر اور بانڈی پورہ میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اموات کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ اب تو دنیا کو مجرمانہ خاموشی توڑ کر بھارت سرکار پر زور دینا چاہئے کہ مقبوضہ وادی میں کرفیو فوری طور پر ختم کرے اور کشمیریوں کو تمام حفاظتی اور طبی سہولتیں فراہم کرے۔ ورنہ بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں مظلوم کشمیریوں کے قتلِ عام کے ساتھ ساتھ یہ بھی بھارتی حکومت کے ہاتھوں کشمیریوں کا قتلِ عام ہی تصور ہوگا۔