افغان امن عمل کو دھچکا

April 09, 2020

دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد افغانستان میں دیرپا امن اور ایک مستحکم حکومت کے قیام کی کوششوں کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا جب انٹرا افغان ڈائیلاگ کے دوران کابل انتظامیہ نے 15اہم طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ معاہدے کی اس خلاف ورزی پر طالبان نے سرے سے مذاکرات ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ قیدی خطرناک طالبان کمانڈرز ہیں جو ہمارے لوگوں کے قاتل ہیں۔ انہیں چھوڑا تو وہ پھر میدانِ جنگ میں پہنچ کر پورے علاقے پر قبضہ کر لیں گے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا موقف ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت کابل حکومت ان قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر بین الافغان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے وہ ان سے الگ ہو رہے ہیں۔ معاہدے کے تحت اشرف غنی حکومت کو 5سو طالبان قیدی رہا کرنے ہیں اس نے 4سو کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے جو اس کی نظر میں زیادہ خطرناک نہیں ہیں لیکن طالبان نے یہ پیشکش رد کر دی ہے اور پورے معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ تجزیہ نگار مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی خدشات ظاہر کر رہے تھے کہ کابل انتظامیہ امریکی وعدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے طالبان پر اپنی شرائط مسلط کرنے کی کوشش کرے گی جنہیں طالبان قیادت کبھی قبول نہیں کرے گی۔ یہ خدشات اب درست ثابت ہورہے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کو، جو کورونا وائرس کی ابتلا کے بعد جلد از جلد افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، چاہئے کہ اپنی حاشیہ بردار کابل حکومت سے دوحہ سمجھوتے پر لفظی و معنوی طور پر عملدرآمد کرائے ورنہ افغانستان میں امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا اور خانہ جنگی پھر وہیں سے شروع ہو جائے گی جہاں امریکہ کی کوششوں سے رُکی تھی۔ کابل حکومت کو بھی قیامِ امن کا یہ موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔