کورونا کے جانے کے بعد

April 14, 2020

کورونا وائرس نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کیے ہیں، اُن میں سب سے بڑا مسئلہ ہمیں اپنی کچھ عادتیں بدلنا ہیں جو ہمیں نسل در نسل اپنے آبائو اجداد سے ملی ہیں۔ ان عادتوں کو چھوڑنا درکنار، ہم ان عادتوں سے اجتناب کرنا اپنے لیے مصیبت سمجھتے ہیں مثلاً بغلگیر ہونا ہمارے لیے لازمی ہے۔ ایک دوسرے کو سختی سے بانہوں میں جکڑ لینے سے ہم ایک دوسرے سے اپنی والہانہ دوستی، اپنائیت، چاہت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر میں گلے ملنے، بغل گیر ہونے سے سختی سے پرہیز سرفہرست ہے۔ ڈاکٹروں نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے سے سختی سے روکا ہے۔ بچھڑے ہوئے دوست برسوں بعد ملنے کے باوجود ایک دوسرے کو گلے نہیں لگا سکتے۔ کچھ ڈاکٹروں نے تو یہاں تک متنبہ کر دیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بار بار سینے سے لگانے سے پرہیز کریں۔ اس سختی نے ہمیں بہت بڑا ثقافتی دھچکا دیا ہے۔ سماجیات کے ایک ماہر نے مشورہ دیا ہے کہ پاکستانی قوم کو لازمی طور پر اینٹی سوشل ہونا پڑے گا۔ ورنہ وہ بغل گیر ہونے کی جان لیوا عادت سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر سکے گی۔

ایک اور احتیاطی تدبیر جس نے ہمارے ثقافتی ورثے کو اچھا خاصا دھچکا پہنچایا ہے وہ ہے آپس میں مل بیٹھنا اور گپ بازی کرنا۔ احتیاطی تدبیر کے مطابق مل بیٹھنا منع ہے۔ پہلے جو گھر کے باہر چار پائیاں لگا کر دوست احباب مل کر بیٹھتے تھے، اب یہ ممکن نہیں ہے۔ اب مل بیٹھنا جرم ہے۔ آپ کو ہر حال میں ایک دوسرے سے چھ فٹ دور رہنا ہے۔ اگر آپ مل بیٹھنے اور اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کے عادی ہیں بلکہ اپنی عادت سے مجبور ہیں تو پھر آپ فقیر کی ایک تجویز پر عمل کیجئے۔ آپ رات رات بھر گپ بازی کرتے رہیں گے اور قانون سے بھی بچے رہیں گے۔ آپ دوست اور احباب ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ ایک لائوڈ اسپیکر کا بندوست کر لیجئے۔ وہ اس لیے کہ اگر آپ دس دوست مل بیٹھے ہیں اور آپ نے آپس میں چھ چھ فٹ کا قانونی فاصلہ رکھا ہے تو پھر ایسی صورتحال میں پہلے دوست اور دسویں دوست کے درمیان ساٹھ فٹ کا فاصلہ ہوگا۔ آپ ساٹھ فٹ کے فاصلے سے یا تو چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے باتیں کیجئے یا پھر لائوڈ اسپیکر کا استعمال کیجئے۔

لگتا ہے عوامی سرکار نے عوامی گھروں میں کبھی جھانک کر نہیں دیکھا ہے۔ ایک ڈیڑھ کمرے والے نیم تاریک عوامی گھروں میں آٹھ دس افراد پر مبنی کنبے رہتے ہیں۔ کنبہ سے مراد ہے فیملی۔ لوگوں کو لاک ڈائون کر دیا گیا ہے۔ وہ گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ عوامی سرکار کے احکامات پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ کمرے کے گھر میں آٹھ آٹھ، دس دس یا اس سے بھی زیادہ بڑے کنبے کے افراد بند پڑے رہتے ہیں۔ عوامی سرکار اور سرکاری ڈاکٹروں نے ان کو گھروں میں بند رہنے کا پابند بنا دیا ہے مگر ان کو یہ نہیں بتایا کہ کنبے کے دس افراد ایک ڈیڑھ کمرے کے گھر میں ایک دوسرے سے چھ فٹ کی دوری کیسے رکھیں۔ ان کے گھروں میں ایک چار پائی پر تین تین، چار چار بچے ایک ہی چادر تان کر سوتے ہیں۔ عوامی گھروں میں تازہ ہوا کا گزر نہیں ہوتا۔ کنبہ کے آٹھ دس افراد کے پندرہ بیس روز سے ایک کمرے میں پڑے رہنے سے کیسی کیسی ذہنی اور جسمانی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، اس کے بارے میں سرکار نے لوگوں کو کچھ نہیں بتایا ہے۔ کام کاج کرنے والے گھروں پر پڑے ہوئے ہیں۔ آمدنی بند ہو چکی ہے۔ تنگ دستی دروازے توڑ کر عوامی گھروں میں گھس آئی ہے۔ تنگ دستی رشتوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ ویران اور سنسان سڑکیں اور بند دکان دیکھ کر سرکار خوش ہوتی ہے کہ لوگوں نے احکام پر لبیک کہا ہے مگر سرکار قطعی طور پر نہیں جانتی کہ محصور لوگوں کے گھروں کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ 2002اور 2012کے کورونا کی طرح آج کے کورونا کو بھی جانا ہے۔ اس کے بعد سرکار قطعی طور پر نہیں جانتی کہ ڈربوں جیسے گھروں میں محصور کروڑوں لوگ جب گھروں سے نکلیں گے تب اپنے ساتھ کیسے کیسے رویے، کیسی کیسی جسمانی اور ذہنی بیماریاں ساتھ لے آئیں گے۔ تب پاکستانی معاشرہ وہ نہیں رہے گا جو پہلے ہوتا تھا۔ تب آپ تبدیلی کی بھیانک شکل دیکھیں گے۔

احتیاطی تدابیر میں بار بار ہاتھ دھونے پر اس قدر زور دیا جا رہا ہے کہ کورونا کے جانے کے بعد کروڑوں لوگ بار بار ہاتھ دھوتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اپنے قدرتی مدافعتی نظام سے ان کا یقین اٹھ چکا ہوگا، بار بار ہاتھ دھونا ان کی نفسیاتی عادت بن چکی ہوگی۔ آپ کسی ماہر نفسیات سے معلوم کریں کہ OCDیعنی آبسیسو کمیلیسو ڈس اورڈر Obsessive Compulsive Disorderکس بلا کا نام ہے۔ ایک نفسیاتی طور پر بیمار اور خوفزدہ معاشرہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔