جان جائے، دمڑی نہ جائے

April 19, 2020

جان جائے، دمڑی نہ جائے۔ یہ ہے عالمی نظامِ زر کا دستور لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ خود نظامِزر ہی تاریخی گرداب میںہے۔ غالباً عظیم ڈپریشن (1930) اور 2008 کے مالیاتی کساد کے بعد کووِڈ۔19 کے ہاتھوںسب کچھ دائو پہ لگ گیا ہے۔

عظیم ڈپریشن سے نپٹنے کے لیے امریکہ کے صدر روز ویلٹ نے 700 ارب ڈالرز سے نیوڈیل کا ریاستی انجکشن لگایا بھی تو معیشت قبل از گریٹ ڈپریشن کی حالت میں نہ جا سکی اور اُس وقت کے عالمی شہرت کے معاشی گُرو جان کینز کے نزدیک یہ محض اونٹ کے منہ میںزیرے والی بات تھی۔

پھر جب 2008 میںعالمی مالیاتی بحران آیا تو امریکہ کو 800 ارب ڈالر بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور آٹوموبیل کارپوریشنوںکو زندہ رکھنے کے لیے خرچ کرنے پڑے۔ ابھی کورونا کی وبا کے ہاتھوںدُنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس دیوالیہ کی جانب رواں ہو گئی ہیں۔

عالمی پیداوار کی نمو 6 فیصد سے کم ہو گئی ہے، جبکہ معاشی ابتلا کو ٹالنے کے لیے امریکہ نے تقریباً 6 کھرب ڈالرز اور دیگر ترقی یافتہ ملکوںنے 3 کھرب ڈالر منڈی کی دیوی کی بھینٹ چڑھانے کا بندوبست کیا ہے۔

اور پھر بھی کسی کو کوئی اُمید نظر نہیں آتی کہ سرمایہ داری کی رونقیںبحال ہو پائیں گی بھی کہ نہیںاور کب۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوںکی حالتِغیر کا کوئی حساب نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اپیل پر 7 ملکوںکے امیر ٹولے اور 20 ملکوںکے گروپ نے جاری مالی سال کے لیے دست نگر ملکوں سے قرضوںکی وصولی ملتوی کر دی ہے اور امکان ہے کہ اگلے برس بھی یہ فیاضی جاری رہے گی۔ قرض کا پھندہ ڈھیلا کیا گیا ہے، لپیٹا نہیںگیا۔

عجب دہرے معیار ہیں۔ جاپان کے قرض کی مقدار اُس کے جی ڈی پی کا 230 فیصد ہے اور امریکہ میںاس کی شرح 110 فیصد، جبکہ ترقی پذیر ملکوںکے لیے یہ حد جی ڈی پی کا 60 فیصد قرار دی گئی تھی جو کیا برقرار رہنی تھی۔

دہرے معیار کا تعلق عالمی مالیاتی اداروں کے پیمانوںمیں بھی صاف جھلکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک منڈی کے چلن کو برقرار رکھنے کے لیے جتنے چاہیں ڈالرز پھونک دیں، لیکن غربت زدہ ممالک پر سخت مالی و مالیاتی قدغنوںپہ زور دیا جاتا ہے اور اس لیے کہ وہ قرضکے اصل زر اور سود کی ادائیگی بروقت کرتے رہیں۔ گزشتہ بحرانوںکی طرح اب بھی کہا جا رہا ہے کہ بے دھڑک نوٹ چھاپو کہ ڈوبتی منڈی کا شکم بھر سکے اور اس میں ایسی مشکل بھی نہیں۔

امریکہ کے وفاقی بینک نے وزارتِخزانہ کے ذمہ قرضوںکو وزارتِخزانہ ہی کی سیکورٹیز یا بلوںکے عوضخرید لیا ہے۔ یوںایک ہاتھ سے دیا تو دوسرے سے واپس ریاستی خزانے میں۔ کیا تماشا ہے اور کسے بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟ یہ سب قرضے امیر ملک عوام کے پیسے اور پبلک خزانے سے لے کر نجی سرمائے کے مفاد میںیوں خرچ کر رہے ہیں جیسے کوئی حلوائی کی دُکان پر ناناجی کی فاتحہ کا اہتمام کرے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کے دہرے معیار کا تعلق بنیادی طور پر قوتِ محنت کے بل پر پیدا ہوئی دولت کی محنت کشوںکی بجائے اُمرا کے ایک انتہائی قلیل طبقے کی تجوریوں میں جمع ہونے سے ہے۔ ذرا غور کیجیے! اوکسفم کی رپورٹ کے مطابق دُنیا کے ایک فیصد کے پاس 7 ارب لوگوں سے دُگنی دولت ہے، اس لیے کہ پچاس فیصد انسان ساڑھے پانچ ڈالرز (500 روپے) روزانہ کی دہاڑی پر مجبور ہیں اور یہ کہ اُمرا اپنی دولت کے ایک ڈالر پہ فقط 4 سینٹ ٹیکس دیتے ہیں اور 30 فیصد تک ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

نتیجتاً ہر سال 10 کروڑ لوگ خطِغربت سے نیچے دھکیل دیے جاتے ہیں اور ہر روز دس ہزار لوگ پبلک ہیلتھ کیئر تک رسائی نہ پانے کے باعث دُنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ عورتوںکے بلامعاوضہ کام کا تخمینہ 10.8 کھرب ڈالرز ہے، سب سے زیادہ محرومی کا وہی شکار ہیں۔

کورونا کے وبائی بحران نے جس طرحعالمی نظامِ زر اور منڈی کے دھرم کا بھانڈہ پھوڑا ہے، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کاہے کی مہذب دُنیا تھی جس نے اپنے شہریوںکی صحت اور امراضسے خلاصی کا کوئی موثر نظام ہی ترتیب نہ دیا۔

عالمی صحت و معیشت کے اس بحران میںسبھی پاپولسٹ لیڈر ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کورونا کے خوف میںلوگ نااہل ترین حکومتوں کو بھی وقت دینے پہ مجبور ہیں۔ اس بحران نے پاکستان میںعمران خان کی حکومت کو جہاں مشکل میں ڈال دیا ہے، وہیں اسے دیرینہ مالی و مالیاتی خساروں پہ جوابدہی کے بجائے چھوٹ مل گئی ہے۔

قرضوں کی اقساط ملتوی ہوئیں، کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو گیا اور مالی خسارہ اگر دس فیصد تک بھی پہنچ گیا تو آئی ایم ایف بھی آنکھیں بند رکھنے پہ تیار ہے۔

اوپر سے عالمی مالیاتی اداروں سے ریلیف میں اربوں ڈالرز کی آمد پر نکمے ماہرین کی باچھیںکھلی جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے شرحِ سود ایک ماہ میں ساڑھے تین فیصد کم کر کے 9 فیصد کر دی ہے اور حکومت نے کارپوریٹ سیکٹرز اور تعمیراتی صنعت کے لیے وسیع مراعات کا اعلان کر دیا ہے۔

محترمہ ثانیہ نشتر کو 3000 روپے ماہوار کے حساب سے چار ماہ کے لیے 12 ہزار روپے کی ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں تک مالی امداد پہنچانے میں کافی دقت پیش آ رہی ہے۔ کیونکہ پہلے سے موجود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس کے ترسیل کے نظام کو معطل کر کے احساس پروگرام کا ڈول ڈال دیا گیا۔

پاکستان جو صحتِ عامہ کے عالمی انڈیکس میں ڈیڑھ سو ممالک سے پیچھے ہے اور جہاںغربت و جہالت کے وسیع سائے ہیں، اُس میں کورونا کے ہاتھوںکیا مشکل ہے کہ جو غریبوں اور محنت کشوںکے جمِغفیر کو درپیش نہیںہوگی۔ لیکن سوائے جمع خرچ کے حکومت کچھ کر نہیںپا رہی۔ اس کے باوجود کہ اب کافی مالی کشادگی پیدا ہو گئی ہے، حکومت ڈیڑھ کروڑ مستحق لوگوں کو کم از کم اجرت کے مساوی (17000 روپے ماہوار) دینے کو تیار نہیں۔

حالانکہ اسٹیٹ بینک نے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے قرض کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات کا اعلان بھی کر دیا ہے، لیکن مفت خور سرمایہ دار طبقے کی حسِ حرص کی تشفی ہوتی نظر نہیںآ رہی۔ صنعتی و کاروباری پہیہ جو کورونا کی وبا سے پہلے ہی نہایت سست روی کا شکار تھا، اچانک صنعتی گہماگہمی پیدا کرنے سے رہا۔

ایسے میںحکومت کی زیادہ تر توجہ دمڑی پہ ہے جان بچانے پہ نہیں۔ لاک ڈائون تقریباً ختم ہوا۔ اور جونہی وبا کی ٹیسٹنگ دوگنی ہوئی تو اموات بھی دوگنی ہوتی نظر آئیں۔ تاجر برادری ہو یا مولانا حضرات، کوئی حفظانِ صحت کے تقاضوں کو ماننے کو تیار نہیں۔