اسناد تو ہیں، مگر شعور و آگہی نہیں....

May 02, 2020

جاوید علی

زندگی کے ہر شعبہ میں شارٹ کٹ کا بڑھتا ہوا رجحان تعلیم میں بھی در آیاہے۔ایک دوروہ تھا ،جب خلیفہ ہارون الرشید کے دونوں بیٹے امین اور مامون استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے اور اٹھانے کے لیے پہل کرنے دوڑ پڑتے تھے،آج نسل نو کی اکثریت ان کا احترام تک کرنا نہیں جانتی۔ اس میں قصور وار اساتذہ بھی ہیں ،جو اپنے مرتبے اور مقام کا خیال نہیں رکھتے، اپنی ذمے داریوں سے روگردانی کرتے ہیں۔انہوں نے تعلیم کو محض کمائی کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہوتاہے، نظام جس قدر پختہ اور بہترین ہو گا، قوم بھی اتنی ہی مضبوط اورترقی یافتہ ہو گی۔تعلیم کے بغیر آج تک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکی ۔

ہمارا مذہب ہمیں تعلیم حاصل کرنے، غور وفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان علم و ادب کے قریب رہےتو انہوں نے دنیا پر راج کیا، مگر جیسے ہی اسلامی تعلیمات فراموش کیں، تعلیم سے دوری اختیار کی، جھوٹ بولنا، رشوت دینا، دھوکہ بازی شروع کی تو ان کی سلطنت زوال پزیر ہوگئی ، غلامی کی زنجیروں نے انہیں جکڑ لیا۔آج ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت اپنے ہی نہیں، اس ملک کےمستقبل سےبھی ناامید ، فکر منداور بیزار نظر آتی ہے،نوجوان شکوہ کرتے ہیں کہ یہاں انہیں ترقی کرنے،روز گار کے بہتر مواقع میسرہیںاورنہ تعلیم حاصل کرنے کے یکساںمواقع ہیں۔اتنی محنت، مشقت کرنےاور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لیے، نوکری حاصل کرنے کے لیے در ، در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

اس بات سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کہ ان کی یہ شکایات بجا ہیں،حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے نظام میں کئی کمزوریاں ہیں، نوجوانوں کے لیے سہولتوںکا فقدان ہے، انہیں وہ آرام اور مواقع میسر نہیں ہیں، جو ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کو ہیں، لیکن کیا صرف شکایات کرنے، نظام کو برا بھلا کہنے، حکومتوں کے خلاف باتیں کرنے سے سب ٹھیک ہوجائے گا؟اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا واقعی صرف مقتدر حلقے ہی اپنی ذمے داریوں سے چشم پو شی کرتے ہیں؟ اگر مشاہدہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ یہاں عوام کی اکثریت اپنی اپنی سطح پر جھوٹ، فریب اور بد عنوانی کی مرتکب ہے۔

نوجوانانِ ملت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں ، لیکن کیا واقعی وہ اس ذمے داری کو بھر پور انداز میں پورا کر رہے ہیں؟نسل نو کی اکثریت پورا پورا سال کتابوں کی شکل نہیں دیکھتی،نوٹس اور پنج سالہ پیپرز پر انحصار کرتی ہے، خانہ پُری کے لیے کالج جاتی ہے، ان کی قابلیت کی قلعی امتحانات میں اس وقت کھلتی ہے، جب پیپرز کی تیاری کرنے کے بہ جائے نقل کرکے پاس ہوتے ہیں۔

پھر جب نوکریاں نہیں ملتیں ،تو نوجوان نظام کو، ملک کو برا بھلا کہتے ہیں، ذرا سوچیں،نقل کرکے پاس ہونےسے اگرسفارش کے بل بوتےپر نوکری مل بھی گئی ،تو کام کیسے کریں گے؟کچھ دن بعد آپ کو ویسے بھی قابلیت کا خود ہی اندازہ ہو جائے گا ،آج کے نوجوان کے پاس بڑی اسناد تو ہیں، مگر شعور، آگہی اورعلم نہیں، اس کی بنیادی وجہ ’’نقل‘‘ ہے۔

طالب علم اس قوم کے معمار ہیں، اس لیے انہیں صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا والدین اور اساتذہ کا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔ یہ ،ضروری ہے کہ نوجوان علم و عمل کے پیکر ہوں،ان کی کام یابیاں محنت و لگن،جستجو اور جدوجہد سے عبارت ہوں، ان کی ڈگریاں ان کی اپنی محنت اور کاوش کا ثمر ہوگی ،تو ملک و قوم کی عمارت بلند اور مضبوط تر ہو گی۔ امتحان میں نقل کر کے ڈگری یافتہ کہلانے کی حیثیت محض کاغذی پُرزوں سے زیادہ نہیں ہوتی،ان سے ملنے والی کام یابی بھی دیرپا نہیں ہوتی۔ ہم ببول بو کر گلاب کی آرزو نہیں کر سکتے۔

نقل ایک ایسا روگ ہے ،جو ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے،نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود ، ان کے ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اورخودی کو ملیامیٹ کرکے قومی ترقی کی جڑپر خنجر چلا دیتا ہے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ کہ نوجوان باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نقل کا انتظام کرتے ہیں ،افسوس تو اس بات کا ہے کہ چند نام نہاد اساتذہ بھی اس مکروہ کام میں ملوث ہو کر علم دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں ۔نقل کروانے والوں کی تعداد گنی چنی نہیں ہے بلکہ اس گھناؤ نے کام کو منظم طور پر انجام دیا جاتا ہے ،دیگر مافیا کی طرح ’’نقل مافیا ‘‘ اس کی نگرانی کرتا ہے،کسی امتحانی مرکز میں موبائل فون کے ذریعے نقل کر وا رہے ہوتے ہیں، کمرۂ امتحان میں حل شدہ پرچوں تک طالب علموں کی رسائی ممکن بنائی جاتی ہے، تاکہ طا لب علم بآسانی نقل کر سکیں، امتحان سے ایک رات پہلے طلباء کواگلے روز آنے والا سوال نامہ مل جاتا ہے،یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے، بلکہ سالہا سال سے چلا آرہا ہے۔

گلی ،محلوں میں پڑے کچرے کی طرح اس نقل کلچر کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امتحانات میں نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے لیے ہم صرف انتظامیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراسکتے، جب والدین اور اساتذ ہ ہی بچوں کی درست سمت میں رہ نمائی کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، تو کسی اور سے کیاشکوہ کریں۔والدین کو چاہیے کہ و ہ پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں وہ بچوں سےان کی نصابی سرگرمیوں، پڑھائی کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں یا نہیں؟

اگر نہیں تو قصو وار کون؟ ان پر نظریں رکھنا اساتذہ کی ہی ذمے داری نہیں بلکہ والدین کا بھی فرض ہے۔کیا انہیں(والدین)کوعلم ہے کہ سوال نامہ خریدنے کے پیسے ہوتے ہیں، کسی اور سے اپنا پرچہ حل کروانےکی الگ قیمت ہوتی ہے، یہ قیمتیں سائنس اور آرٹس کے مضامین کی علیحدہ ہوتی ہیں، یہ پیسے ان کے پاس کہاں سے آتے ہیں؟بہت سے ممتحن چند پیسوں کے عوض طالب علموں کو خود نقل کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب نقل کرنے کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا ، جوطالب علم ایسا کرتے تھے چھپ کر کرتے تھے کہ کہیںاستاد نہ دیکھ لیں یا گھر میں والدین کو نہ پتا چل جائے کہ انہوں نے نقل کی ہے مگر اب وہ دور گزر گیا ، اب تو اساتذہ کوچنگ سینٹرز کے باہر تختی لگاتے ہیں کہ بورڈ کے اساتذہ کی زیر نگرانی امتحان کی تیاری کروائی جائے گی اور والدین بھی بھاری بھرکم فیس کے عوض اپنے بچوں کو با خوشی ایسے کوچنگ سینٹرز میں داخلہ دلواتے ہیں جہاں ٹیچرز کے تعلقات بورڈ میں ہوں تاکہ ان کے بچے کے اچھے نمبرز سے کامیاب ہوسکیں، اب تو بچے خود والدین سے کہتے ہیں کہ ہمیں پیسے دے دیں کیوں کہ امتحانی پرچہ خریدنا ہے اور گھر والے بھی بنا ہچکچائے پیسے دے دیتے ہیں ، کیوں کہ انہیں بچوں کی قابلیت سے نہیں ان کے اچھے نمبرز سے سرو کار ہے، انہیں بس اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بچوں کے کم نمبرز آنے پر خاندان میں یا دوستوں کےسامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔جب والدین اور اساتذہ کی جانب سےہی نقل کرنے پر حوصلہ شکنی نہیں ہو گی تو طالب علموں کو کوئی کیا کہے؟اس عمل سے ایسے ڈاکٹرز وجود میں آئیں گے جن کے ہاتھوں مریض انتقال کر جائیں گے۔ ایسے انجینئرز کی بنائی ہوئی عمارتیں زمین بوس ہو جائیں گی۔

ایسے اکاؤننٹنٹس پیسوں کا درست استعمال نہیں کر سکیں گےاور ایسے جج انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوں گے۔ غرض کہ ملک تمام تر شعبےمیں پستی میں چلے جائیں گے،ایسے ہی تعلیم کا خراب معیار قوموں کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔اگر طالب علموںکو یقین ہو کہ امتحان شفاف ہوں گے تو وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے،کیوں کہ نہ پڑھنے کی صورت میں وہ ناکام ہو سکتے ہیں ۔نقل کے ذریعے پاس ہونے والےنوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ان کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے، مگر کسی کام کے اہل نہیں ہوتے۔نقل کے نقصانات میں زیادہ نقصان ان غریب طلباء کا ہوتا ہے جو سارا سال اپنی محنت اور کوشش سے تیاری کرتے ہیں مگر نقل کے باعث نالائق طلباء زیادہ نمبر لے جاتے ہیں اور محنتی طلباء کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے،اس سے بھی بڑھ کر نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے ،جو طلباء پر لاکھوں روپے خرچ کرکے ان سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں ۔اس سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔

کچھ ہی عرصے میں نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہوجائیں گے،نہ جانے کتنے طلباء نقل کرکے اپنے ہاتھوں،اپنامستقبل تباہ کر رہے ہوں گے، والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں، بچوں میں یہ شعور اُجاگر کریں کہ نقل کے ذریعے ملنے والی کام یابی دیر پا ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہوتی ہے، آگے بڑھنے کے لیے عقل و شعور ، قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور دنیا جس برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے ،ایسے میں ہمیں ’’تعلیم یافتہ، باشعور ، قابل‘‘ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے، اگر نسلِ نو تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو ہم کبھی ترقی کا سفر طے نہیں کر سکیں گے، معاشی طور پر مضبوط ہونا تو درکنار،جو کچھ اب تک حاصل کیا ہے اسے بھی کھونا پڑے گا۔ ملک کو ترقی یافتہ بنا نےکے لیے، تعلیمی نظام کی خامیاں دور کرنی ہوں گی، نقل کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔

نسل نو کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زیادہ نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سال کے اوّل دن سے محنت اور پڑھائی کریں،اگر روز آدھا گھنٹہ بھی ایک مضمون کو دیا جائے، تو امتحان کے زمانے میں رات، رات بھر جاگ کر پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی نقل کرنے کی۔ دیر پا کام یابی چاہتے ہیں، تومحنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں، کیوں کہ قابلیت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔