پی او بی آئی اسپتال

May 10, 2020

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

گزشتہ دنوں دوستوں کے حلقے میں سماجی خدمات موضوعِ بحث تھی، تو ایک دوست نے بتایا کہ ’’کراچی کے علاقے، گلستانِ جوہر کے ایک جدید ترین اسپتال میں بڑے پیمانے پر آنکھوں کے مریضوں کا مفت علاج کیا جارہا ہے۔‘‘ ہم نے سوچا، اگر واقعی ایسی ہی بات ہے، تو چل کر ضرور دیکھنا چائے، لہٰذا، گلستانِ جوہر کے بلاک 12 میں منوّر چورنگی کے قریب اور اشرف المدارس سے متصل ’’پی او بی چیریٹیبل آئی ہاسپٹل‘‘ جا پہنچے۔یہ اسپتال ’’Prevention Of Blindness trust‘‘ یعنی’’ پی او بی ٹرسٹ‘‘ کے تحت کام کر رہا ہے۔ پہلا منظر ہی خاصا متاثر کُن تھا کہ دو، ڈھائی سو افراد انتہائی منظّم طریقے سے انتظار گاہ میں بیٹھے تھے، جن سے بات چیت پر پتا چلا کہ اُن کا مختلف قومیتوں اور شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق تھا۔

اسپتال کی مرکزی عمارت میں داخل ہوئے، تو وہاں بھی ایک طرف درجنوں افراد آرام دہ نشستوں اور ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں آنکھوں کے معاینے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔ ہماری پی او بی ٹرسٹ اسپتال کے جنرل سیکرٹری، ڈاکٹر شایان شادمانی سے ملاقات کروائی گئی، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ پوری تفصیل سے سوالات کے جواب دیے، بلکہ تمام شعبہ جات کا دَورہ بھی کروایا تاکہ دعوئوں کی آنکھوں سے بھی تصدیق کی جاسکے۔

شگفتہ مزاج، ڈاکٹر شایان ہمیں اسپتال کے داخلی دروازے پر لے گئے اور کہا’’بات یہاں سے شروع کرتے ہیں۔‘‘ پھر بتانے لگے ’’جب کوئی مریض اسپتال میں داخل ہوتا ہے، تو اُسے سب سے پہلے مرکزی دروازے کے ساتھ نصب مشین سے ٹوکن لینا پڑتا ہے۔ اس مشین میں7 ڈیپارٹمنٹس کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کے ٹوکن جاری کیے جاتے ہیں، چوں کہ عام افراد کو مرحلے پر مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے مشین کے ساتھ اسپتال کا عملہ بھی رہنمائی کے لیے موجود ہوتا ہے۔ پہلی بار صبح 7 بجے ٹوکن ملتے ہیں، جس میں 200 ٹوکن نئے مریضوں کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ان ٹوکن لینے والوں کو سروس فراہم کی جاتی ہے۔

پھر دوپہر 2 بجے دوبارہ ٹوکن دیے جاتے ہیں، جن میں سے 100 نئے مریضوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ان افراد کو سہ پہر 3 سے شام 5 بجے تک علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ٹوکن لینے کے بعد متعلقہ شخص کا سائونڈ سسٹم کے ذریعے نمبر پکارا جاتا ہے، تو وہ کائونٹر پر آتا ہے، جہاں اُس کی فائل بنتی ہے اور پھر ایک نظام کے تحت مریض خود بخود آگے بڑھتا رہتا ہے۔‘‘ ’’آپریشن کے لیے کن مراحل سے گزارا جاتا ہے؟‘‘

اِس سوال پر اُنہوں نے بتایا ’’جب ڈاکٹر کسی مریض کا آپریشن تجویز کرتا ہے، تو پھر سب سے پہلے ہمارے شریعہ ایڈوائزر مریض کے مختصر سے انٹرویو کے ذریعے اس بات کا تعیّن کرتے ہیں کہ اُس کا آپریشن کس مَد میں کیا جائے؟ یہ اِس لیے ضروری ہے کہ ہمارا سارا کام عوامی تعاون سے ہو رہا ہے اور اُن کے دیے گئے عطیات کو شرعی اصولوں ہی کے مطابق استعمال کرنا ہماری ذمّے داری ہے۔ اِس مقصد کے لیے دارالعلوم کراچی سے وابستہ، مفتی محمود الحسن کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ بعد ازاں، مریض کا ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ہوتا ہے، لینس کے نمبر کا تعیّن کیا جاتا ہے اور پھر باہمی مشاورت سے آپریشن کی حتمی تاریخ دے دی جاتی ہے۔‘‘ ’’او پی ڈی کتنی ہے اور آپریشنز کی تعداد کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر شایان نے جواباً بتایا ’’یومیہ 500 کے قریب افراد آنکھوں کے معاینے کے لیے آتے ہیں، جب کہ یومیہ 50 سے 60 موتیا، 8 سے 10 پردے اور کالے پانی یا بھینگے پن کے بھی کئی آپریشنز ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ اتوار کے علاوہ پورا ہفتہ جاری رہتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے عمارت کے فرسٹ فلور کو تھیٹر کمپلیکس میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں جدید ترین آلات اور مشنریز سے آراستہ 4 آپریشن تھیٹر ہیں۔

یوں سمجھ لیجیے، ہر ماہ اوسطاً 15 سو موتیے کے آپریشن ہوتے ہیں۔‘‘ ہمیں مخصوص لباس پہنا کر آپریشن تھیٹر بھی لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹر رابیعہ، ڈاکٹر جنید اور ڈاکٹر حنیف گوڈیل موتیے کے مریضوں کا آپریشن کر رہے تھے۔ اس موقعے پر دو سوال پوچھے جانے ضروری تھے کہ ’’آنکھوں کے معاینے سے لے کر آپریشنز تک استعمال ہونے والی مشینز کس قدر معیاری ہیں؟‘‘ اور دوسرا سوال یہ کہ ’’سرجن، ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ کتنا کوالیفائڈ ہے؟‘‘ جواباً ہمیں مختلف مشینز کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ پھر بریفنگ میں بتایا گیا ’’یہ او سی ٹی مشین ہے۔

اسپتال میں آنکھوں کے معاینے اور مختلف آپریشنز کے لیے کروڑوں روپے مالیت کی جدید ترین مشینز ہیں، جو کراچی کے چند ہی نجی اسپتالوں میں دست یاب ہیں

آنکھ کے پردے میں معمولی سا بھی نقص آنے لگے، تو یہ فوراً نشان دہی کر دیتی ہے۔ یہ مشین اِس طرح کام کرتی ہے، جیسے دماغ کی ایم آر آئی ہوتی ہے۔ جرمنی کی بنی ہوئی اس او سی ٹی مشین کی مالیت3 کروڑ روپے ہے اور کراچی میں یہ ہمارے علاوہ صرف آغا خان اسپتال، لیاقت نیشنل یا سائوتھ سٹی اسپتال میں ہے۔ عملہ بھی اُن جتنا ہی تربیت یافتہ ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ ٹیسٹ مفت ہوتا ہے اور وہاں 8 سے 10 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس مشین کی وجہ سے کالے پانی کا علاج بہت بہتر ہو گیا ہے۔

پہلے جب کالے پانی کی تشخیص ہوتی تھی، اُس قت تک آدھی سے زیادہ بینائی جاچُکی ہوتی، مگر اب ابتدا ہی میں یہ مرض پکڑا جاتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے سَستی مشینز بھی استعمال ہوتی ہیں، لیکن اُن کے ذریعے ٹیسٹس کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور وقت بھی کافی لگتا ہے، جب کہ یہ مشین محض دو منٹ میں مکمل ٹیسٹ کر لیتی ہے، جو نتائج کے اعتبار سے بھی مستند ہوتا ہے۔

دنیا میں اس سے بہتر مشین دست یاب نہیں۔‘‘ ایک اور کمرے میں کچھ مشینز رکھی ہوئی تھیں، اُن کے متعلق بتایا گیا’’یہ لیزر مشینز ہیں۔ آنکھوں میں شوگر کی وجہ سے پردے کو نقصان ہو، تو ان کے ذریعے پردے کو بچایا جاتا ہے۔ جو کام عام مشین ایک گھنٹے میں کرتی ہے، وہ یہ 10 منٹ میں کر لیتی ہیں۔ آپریشن کے بعد پردے کے پیچھے کچھ عرصہ گزرنے پر ایک جھلی سی آجاتی ہے، اس گرین لیزر مشین کے ذریعے اُسے ختم کیا جاتا ہے۔ وہ الٹرا سائونڈ کی جدید ترین مشین ہے، جو بہت کم اسپتالوں میں ہے۔‘‘ پھر ہمیں وی آر ڈیپارٹمنٹ لے جایا گیا، جہاں کئی مشینز موجود تھیں۔ ڈاکٹر شایان گویا ہوئے’’یہ پردے کی سرجری کے لیے خاص مائیکرو اسکوپ ہے، جس کی مالیت3 کروڑ روپے ہے، جب کہ عام مائیکرو اسکوپ20 لاکھ تک میں آجاتی ہے۔

ڈاکٹر شایان شادمانی نمایندہ جنگ کو تفصیلات بتاتے ہوئے

یہ جو دو مشینز نظر آرہی ہیں، یہ بھی دو، دو کروڑ سے زاید کی ہیں، گویا ایک وی آر ڈیپارٹمنٹ میں تقریباً7 کروڑ روپے مالیت کی مشینز ہیں۔ یہاں دو وی آر سرجن ہیں اور شاید ہی کسی اور اسپتال میں اس شعبے کے اتنے تربیت یافتہ سرجن ہوں۔ شہر کے ایک بڑے نجی اسپتال میں وی آر سرجری کے لیے ساڑھے 4 لاکھ تک وصول کیے جاتے ہیں، جب کہ ہم یہ آپریشن بھی مفت کرتے ہیں۔‘‘ ’’اور وہ عملے کی مہارت کا سوال؟‘‘ ہمارے یاد کروانے پر وہ بولے’’اس سوال کا کچھ جواب تو دے ہی چُکا ہوں۔ ہمارے ہاں او پی ڈی کے لیے بھی محض ایم بی بی ایس ڈگری کے حامل ڈاکٹرز نہیں ہیں، بلکہ سب کنسلٹنٹ ہیں۔

اسی طرح سرجن بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ضروری تربیت سے لیس ہیں۔ باقی عملہ بھی تربیت یافتہ ہے۔ اسپتال میں 15 ڈاکٹرز ہیں، جنہیں باقاعدہ مارکیٹ کی بنیاد پر تن خواہ دی جاتی ہے، جب کہ ان کے علاوہ کئی ڈاکٹرز رضا کارانہ طور پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔‘‘ دوست نے بتایا تھا کہ اس اسپتال میں مفت علاج ہوتا ہے، جب اس کی کچھ تفصیل معلوم کرنی چاہی، تو بتایا گیا ’’جی ہاں! آپ نے درست ہی سُنا ہے۔ یہاں آنکھوں کے معاینے سے لے کر آپریشن تک ایک روپیا بھی وصول نہیں کیا جاتا، سب کچھ مفت ہوتا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ آپریشن موتیے کے ہوتے ہیں، جس میں لینس کی ضرورت بھی ہوتی ہے، مارکیٹ میں اس طرح کے آپریشن کے 20 سے 25 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں مگر ہم ایک پیسا بھی نہیں لیتے۔

آنکھوں کے معاینے کے لیے آنے والوں کے لیے آرام دہ نشستوں اور ائیر کنڈیشنڈ ماحول کا اہتمام کیا گیا ہے

البتہ، اگر مریض اپنی مرضی سے خود کچھ عطیہ کرنا چاہے، تو اس کی مرضی۔ کئی مریض سمجھتے ہیں کہ وہ مفت علاج کے مستحق نہیں، مگر اعلیٰ معیار کی وجہ سے یہاں آئے ہیں، تو وہ کچھ نہ کچھ رقم جمع کروا دیتے ہیں، مگر اسپتال کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ اِسی طرح بعض مریض ایسے بھی آتے ہیں، جو پریمئیر لینسز کے ساتھ آپریشن کروانا چاہتے ہیں، جس کے مارکیٹ میں 80 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں، مگر ہم اُس کے بھی محض 30 ہزار روپے لیتے ہیں۔‘‘

کراچی کے ہر ضلعے میں آنکھوں کا اسپتال بنائیں گے، ڈاکٹر مصباح العزیز

ڈاکٹر مصباح العزیز’’ پی او بی ٹرسٹ آئی ہاسپٹل، کراچی‘‘ کے چیئرمین ہیں۔ ہماری اُن سے بھی خصوصی نشست ہوئی۔ اس موقعے پر اُنہوں نے بتایا ’’Prevention Of Blindness trust‘‘ یعنی’’ پی او بی ٹرسٹ‘‘ لاہور میں رجسٹرڈ ہے اور یہ ’’پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘ (پیما) کے زیرِ نگرانی کام کرتا ہے۔ دراصل، مُلک کے مختلف حصّوں میں بہت سے لوگ آنکھوں کے علاج معالجے کے ضمن میں سماجی خدمات انجام دے رہے تھے، تو’’ پیما‘‘ نے اُنہیں اِس ٹرسٹ کے ذریعے منظّم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کی زیادہ بہتر طور پر خدمت کی جاسکے۔

اس ٹرسٹ کے تحت لاہور میں بھی ایک سینٹر ہے، جس کے تحت پنجاب اور کے پی کے میں سالانہ 28 طبّی کیمپس لگائے جاتے ہیں، جن میں 500 کے لگ بھگ سرجری ہوتی ہیں۔ تاہم، لاہور میں بوجوہ ابھی تک آئی ہاسپٹل نہ بن سکا، لیکن وہاں بھی اس سمت میں تیزی سے کام جاری ہے۔ کراچی میں پہلے کرائے کی عمارت میں کام شروع کیا گیا اور اب اسپتال کی اپنی تین منزلہ عمارت ہے۔ آنکھوں کے چند کینسرز کے علاوہ باقی تمام امراض کا یہاں علاج ہوتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ کسی بڑے سے بڑے سرکاری یا نجی اسپتال کے برابر ہونے کے باوجود تمام علاج مفت کیا جاتا ہے۔

سفید موتیا کے، جو نابینا پن کا سب سے بڑا سبب ہے، سب سے زیادہ آپریشن ہوتے ہیں۔ اس برس موتیا کے 18 ہزار آپریشنز کا ہدف تھا، جو تقریباً حاصل کر لیا گیا۔ اگلے برس کے لیے 35 ہزار آپریشنز کا ہدف ہوگا۔ ہر ماہ موتیے، کالے پانی اور پردے کے 15 سو آپریشنز کیے جارہے ہیں۔ لینسز کی سہولت اُن افراد کے لیے بہت اہم ہے، جن کی آنکھوں کے پردے پر شوگر کے اثرات ہوں۔ بروقت لینسز لگنے سے وہ شوگر کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں، ورنہ نابینا پن تک پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مصباح العزیز

ہماری کوشش ہے کہ یہ اسپتال شہر میں ایک ایسا مرکز بن جائے، جہاں آنکھوں کے تمام امراض کا معیاری اور مفت علاج ہو۔ نیز، اِس طرح کے مراکز شہر کے ہر ضلعے میں بنا رہے ہیں تاکہ عوام کو اُن کے گھروں کے قریب ہی علاج معالجے کی سہولت مل سکے۔ پہلے مرحلے میں آدم جی نگر اور حسین آباد میں مراکز قائم کیے جا رہے ہیں، جو تقریباً تیار ہیں اور چند دنوں میں خدمات کا آغاز کردیں گے۔علاوہ ازیں، ہم ہر اتوار شہر کے مختلف علاقوں میں طبّی کمیپس کا بھی انعقاد کرتے ہیں۔ نیز، تھرپاکر اور سکھر میں بھی اسپتال کے یونٹس قائم کر دیے ہیں۔ اِن شاء اللہ اگلے آٹھ، دس برسوں میں پورے مُلک میں پی او بی ٹرسٹ کے تحت آنکھوں کے اسپتال قائم ہوجائیں گے۔‘‘ ’’ کہیں ایسا تو نہیں کہ علاج تو مفت ہوتا ہو، مگر معیار قدرے کم ہو؟‘‘ اِس سوال پر اُن کا کہنا تھا’’نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

آپ اسپتال میں موجود مشینز کے بارے میں تو بریفنگ لے ہی چُکے ہیں اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ہے، لیکن چوں کہ آپ اِس شعبے کا ماہر نہیں، اِس لیے شاید رائے قائم کرنے میں مشکلات ہوں، تاہم معروف اسپتالوں کے ماہرین کی ٹیمز یہاں کے دَورے کرتی رہتی ہیں اور وہ سب یہاں کے معیار کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم نے صرف مشینز ہی معیاری نہیں رکھیں، بلکہ ڈاکٹر، سرجن اور دیگر اسٹاف بھی تربیت یافتہ ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں نگرانی کا نظام بھی متحرّک ہے تاکہ علاج معالجے میں کسی بھی سطح پر ہونے والی کوتاہیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم مریضوں کی عزّتِ نفس کا بے حد خیال رکھتے ہیں۔

اُن کے بیٹھنے کا مناسب انتظام کیا گیا ہے، تو عملے کو بھی سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ اُن سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مفت میں علاج ہو رہا ہے، تو اُنہیں اہمیت ہی نہیں دی جارہی۔‘‘ ہمارے ہاں عام طور پر آنکھوں کی حفاظت کے لیے بنیادی معلومات اور شعور کی خاصی کمی محسوس ہوتی ہے، اِس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ڈاکٹر مصباح نے کہا ’’ہم عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ اِس حوالے سے تیار کردہ ایک خصوصی ویڈیو ہر اسپتال میں مسلسل چلتی رہتی ہے۔نیز، ہماری ٹیمز اسکولز کے دَورے کرتی ہیں، جہاں بچّوں کو آسان زبان میں آنکھوں کی حفاظت سے متعلق بتایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ہم آنکھوں کے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی لیکچرز کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔‘‘

طبّی کیمپس، عوام کے لیے ایک بڑی سہولت

ڈاکٹر راؤ محمّد نعیم

پی او بی آئی اسپتال کی جانب سے کراچی کے مختلف علاقوں میں طبّی کیمپس بھی لگائے جاتے ہیں۔ پروگرام مینیجر، ڈاکٹر راؤ محمّد نعیم نے اِس ضمن میں بتایا ’’ہر اتوار کو شہر کے 12 مختلف مقامات پر آئی کیمپس لگائے جاتے ہیں، جن میں سے6 مقامات تو مستقل ہیں، جب کہ باقی کیمپس کا مقام بدلتا رہتا ہے۔

ان کیمپس میں سے چھے، سات سو افراد کے آنکھوں کا معاینہ کیا جاتا ہے۔ اگر اُن میں سے کسی کو آپریشن کی ضرورت ہو، تو اُسے ادارے کی گاڑی ہی میں اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں ضروری سرجری کی جاتی ہے۔ یوں ہر اتوار کو 200 افراد کی سرجری کی جاتی ہے۔ نیز، ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو زیادہ آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ان مریضوں کو آپریشن کے بعد چیک اپ کی سہولت بھی گھر کے قریب فراہم کی جاتی ہے۔‘‘

عوامی عطیات…اعتماد کا ثبوت

ڈاکٹر مصباح العزیز کا اسپتال کے اخراجات سے متعلق کہنا تھا کہ ’’ابتدا میں ہم خیال لوگوں نے ہمارا کام دیکھا، جو اُنہیں پسند آیا، تو اُنہوں نے عطیات دینا شروع کر دیے اور پھر اس کا دائرہ اُن کے دوستوں تک وسیع ہوگیا۔ اب بھی90 فی صد اخراجات عوامی عطیات ہی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اِس وقت صُورتِ حال یہ ہے کہ گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ 50 سے 100 مریضوں کو واپس کرنا پڑتا ہے۔

اسپتال کو وسعت دینے کی شدید ضرورت ہے، جس کے لیے برابر میں واقع ایک600 گز کا پلاٹ خریدا گیا ہے، مزید پلاٹس بھی خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اسپتال کی وسعت کے ساتھ نئے آلات اور مشینز بھی خریدنی ہوں گے، جب کہ مزید عملے کی بھی ضرورت پڑے گی۔ باقی جہاں تک حکومت سے امداد کا سوال ہے، تو ہم نے ابھی تک اِس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔البتہ بہت سی حکومتی شخصیات ہمارے کام سے واقف ہیں اور وہ مختلف مواقع پر اس کی تعریف بھی کرتی ہیں۔‘‘