"میری ماں" ماں کے حوالے سے چند کامیاب لوگوں کے تاثرات

May 08, 2020

عورت ہر کردار میں خوب صورت ہوتی ہے۔ چاہے وہ بیٹی ہو ،بیوی ہو ،بہن ہو یا ماں ہو لیکن اس کا سب سے خوب صورت روپ ’’ماں ‘‘ کا ہوتا ہے ۔اس رشتے کو نبھانے کے لیے وہ ہر دکھ ،تکلیف برداشت کرلیتی ہے ۔اپنے بچوں کے لیے تپتی دھوپ میں گھنا سایہ بن کر ان کا خیال کرتی ہے ۔اپنے حصے کو نوالہ بچوں کو کھلا کر خود بھوکی سو جاتی ہے ۔ایسی ہوتی ہے ماں جو اپنا سب کچھ بچوں کے لیے قربان کردیتی ہے ۔ ذیل میں چند معروف شخصیات کے اپنی ماں کے حوالے سے تاثرات ملا حظہ کریں ۔

حکیم محمد سعید

میری والدہ محترمہ رابعہ ہندی بڑی دین دار خاتون تھیں اور میرے والد جناب حکیم عبدالمجید صاحب کی طرح تہجد گزار تھیں۔ اپنے بچّوں کی دینی تعلیم و تربیت پر انہوں نے خصوصی توجّہ کی تھی۔ میں دو سال کا تھا کہ میرے والد 42سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ انہیں طب سے والہانہ تعلق تھا، انہوں نے دوا سازی میں اعلیٰ مقام پیدا کیا اور طبی دوائوں کو معیار عصری عطا کیا اور نہایت کم سرمایہ سے ہمدرد کی بنیاد رکھی جس میں میری والدہ محترہ کی مکمل عملی اعانت انہیں حاصل تھی۔

والد محترم کی رحلت کے بعد بہ کمال جرأت والدہ محترمہ نے ہمدرد کو پردے میں بیٹھ کر سنبھال لیا اور میرے بڑے بھائی محترم حکیم عبدالحمید صاحب کی تعلیم طب پر توجّہ کی اور جب تک بھائی جان محترم بڑے ہوئے انہوں نے کام کو سنبھالا۔ میرے ایک بھائی مرحوم عبدالوحید بھی تھے۔ ہم تینوں بھائیوں کو میری والدہ نے 1928ء میں پہلا حج بھی کرایا۔ ہمیں حافظ قرآن بھی بنایا اور پھر حکیم بھی بنایا۔

معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کے لیے اچھے اور پرعزم اوصاف کے حامل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے اوصاف ماں کی گود ہی سے نمو پاتے ہیں وہ ماں کہ جو عورت ہے۔ پیغمبروں اور عظیم انسانوں نے اپنا بچپن عورت کی آغوش ہی میں گزارا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس خوبصورت کائنات اور اس کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کیلئے انسان کے فکر کی حدود کے مطابق ہی تخلیقات فرمائی ہیں۔ دنیا کا پہلا جوڑا ایک مرد اور عورت پر ہی مشتمل پیدا کیا گیا۔ ان دونوں کے عمل و فکر اور ہدایات الٰہی سے جو کچھ وجود پذیر ہوا وہ معاشرے کی ابتدائی شکل تھی۔ ایک اچھے معاشرے کیلئے مرد اور عورت دونوں کاتعاون ضروری ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ارتقاء میں مرد کا عمل اور حصّہ زیادہ ضرور ہے۔ بہ ایں ہمہ یہ مرد ایک عورت ہی کی آغوش میں پرورش پاتا ہے اور اسے ماں کی گود میں ہی ان آنچلوں کی ہوا نصیب ہوتی ہے جو اس میں تعمیر کا حوصلہ، ہمت اور حوادث سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔

ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور حال میں بھی اس کا ظہور آتا ہے۔ نصف آبادی سے زیادہ ہماری دنیا یں عورتوں کو معاشرے کی تعمیر و اصلاح کے عمل سے دور کر کے شہروں میں عورتوں کو اپنی آسودگی کا وسیلہ اور دیہات میں خدمت گزاری کا ذریعہ بنا چھوڑا ہے جو احکام الٰہی کی نفی ہے۔ بلاشبہ عورتیں اصلاح معاشرہ میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور بعض صورتوں میں ان رکاوٹوں کے باوجود کر رہی ہیں کہ جو ان کیلئے کھڑی کر دی گئی ہیں۔ عورت کو ماں کی تقدیس، بہن کی رفاقت اور بیٹی کی خدمت کا مقام عطا کیا جانا چاہئے۔

ایس ۔ایچ۔ہاشمی

جب بہار میں گھروں کو خالی کرایا گیا، تین دن تک مسلمان لڑتے رہے اور پھر ملٹری کے گورکھا نے کہا کہ آپ لوگ شہر سے نکل جائیں اور تھانے چلیں۔ ہماری تو ماں، بہنیں کبھی گھر سے نہیں نکلی تھیں۔ میری ماں نے زیورات کا ایک گٹھر دیا اور ایک چھوٹا بچّہ بھی دیا اور کہا کہ یہ تمہاری تحویل میں، تم یہ سنبھال کر لے چلو۔ اس وقت میری عمر دس، گیارہ برس کی ہو گی لہٰذا دونوں چیزوں کو لے کر مجھ سے چلا نہ جائے، وزن زیادہ تھا، بچّہ بھی چھوٹا تھا تو میں نے گٹھری سے زیورات نکال نکال کر پھینکنا شروع کر دیئے تاکہ مجھ پر جو وزن ہے وہ کم ہو سکے، بچّے کو تو پھینکا نہیں جا سکتا تھا۔

لہٰذا اس طرح فاصلہ مکمل ہونے سے پہلے میں نے گٹھری کا بوجھ ختم کر دیا تھا اور وہ بچّہ جو میرے کندھے پر اس وقت سوار تھا اور بہت چھوٹا سا تھا وہ آج (1991ء میں) مشہور ڈائجسٹ کا ایڈیٹر ہے ’’حسن ہاشمی‘‘ یہ وہی بچّہ ہے۔ جب منزل پر پہنچے اور میری ماں نے جب معلوم کیا کہ گٹھری کہاں ہے تو میں نے کہا کہ وہ تو ایک ایک کر کے تمام راستہ میں پھینک آیا۔ میں نے کہا یا تو میں اس گٹھری کو پھینکتا یا پھر اس بچّے کو پھینکتا… میری والدہ نے کہا کہ اچھا کیا تم نے بچّہ نہیں پھینکا۔

عبدالستار ایدھی

میری عمر جب تقریباً اٹھارہ سال تھی تو اس وقت میری والدہ کو فالج ہو گیا اور وہ معذور ہو گئی تھیں۔ میں نے ان کی بہت خدمت کی، راتوں کو جاگ جاگ کر ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔

اسی دوران میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے زندگی کی تمام نعمتوں سے مجھے نوازا ہوا ہے اور میں نے اپنی والدہ کے علاج و خدمت میں کوئی کمی نہیں آنے دی لیکن وہ لوگ جن کی آمدنی کم ہو گی یا کوئی ذریعہ نہ ہو گا وہ اپنے بیمار اور معذور والدین یا رشتہ داروں کی خدمت کیسے کرتے ہوں گے؟

ان بے سہارا افراد کی زندگی کیسے گزرتی ہو گی؟ بس یہی سوچ کر میں نے انسانی خدمت کا ارادہ کیا اور پھر یہ فیصلہ کر لیا کہ ساری زندگی ایسے ضرورت مند، بے سہارا لوگوں کی خدمت میں گزاروں گا۔