پاکستان میں میچ فکسنگ اسکینڈل کا جن اچانک بے قابو

May 12, 2020

الزامات،الزامات اور الزامات، سابق کرکٹرز اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹرز کی جانب سے پرانے الزامات کو میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنایا جارہا ہے۔پاکستان میں میچ فکسنگ کا جن اچانک بے قابو ہوگیا ہے۔سابق کرکٹرز اور ایڈمنسٹرز کی جانب سے نت نئی کہانیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ طول ہوتا جارہا ہے۔الزامات کی اس لہر سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہورہا لیکن پاکستان اور پاکستان کرکٹ کی بدنامی ہورہی ہے۔

سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اس مہم کے پیچھے کون ہے۔فائدہ کسے ہوگا اور کس کو نقصان ہوگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے فوری طور پر میچ فکسنگ کے بیس سال پرانے کیس کو ری اوپن کرنے کے امکانات کو مسترد کردیا ہے البتہ مخصوص حلقوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کی وجہ سے اب اس بات کے امکانات روشن ہوگئے ہیں کہ پی سی بی میچ فکسنگ کے قانون کو جلد حتمی شکل دے کر کھیلوں کی وزارت کو بھجوائے گا۔پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر قانونی ماہرین کی مدد سے نئے قانون کے مسودے کی تیاری میں مصروف ہیں۔پی سی بی چیئر مین احسان مانی بھی کہہ چکے ہیں کہ کرکٹ کرپشن کے قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کرائیں گے تاکہ مستقبل میں کوئی کھلاڑی یہ جرم کرتے وقت دس بار سوچے گا۔پی سی بی سے نئے قانون کا مسودہ مرحلہ وار منظوری کے لئے کھیلوں کی وزارت سے یہ قانون ،وزارت قانون کے پاس جائے گا جہاں سے اسے حتمی منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔آخر کیوں ہر بار کوئی پرانی قبریں کھود کر بھولے بھٹکے زخم تازہ کرتا ہے اور پھر اچانک چپ سادھ لیتا ہے؟

فکسنگ کے اس بدنما داغ نے پچھلے 35 برسوں میں بار بار پاکستان کرکٹ کے چہرے کو داغ دار کیا ہے۔ اب جب کہ 92 کا کپتان عمران خان قانون ساز اسمبلی کا سربراہ اور وزیر اعظم ہے۔تو کیوں نہ 90 کی دہائی کے سارے حساب ایک ہی بار بے باق کر دیے جائیں؟دراصل عمران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد میچ فکسنگ کا بھیانک کھیلا گیا جس میں ملک کے کم از کم آٹھ کھلاڑیوں نے دونوں ہاتھوں سے مال لوٹا اور جیتے ہوئے میچ ہار دیئے۔زمبابوے اور بنگلہ دیش کے خلاف میچ ہار کر پیسہ بنایا گیا۔

لیکن جب تحقیقات شروع ہوئیں تو سب ہی پارسا بن گئے۔سلیم ملک کو تاحیات پابندی پر سزا ملی۔عطاء الرحمن جھوٹ بولنے پر پابندی کی زد میں آگئے۔بقیہ کھلاڑیوں کو جرمانے دے کر چھوڑ دیا گیا۔1993سے شروع ہونے والا یہ بھیانک کھیل آج بھی جاری ہے۔ماضی کے اسٹار اب مختلف روپ میں ہیں جبکہ اب نئے کردار سامنے آرہے ہیں۔لیکن یہ گھنائونا کھیل رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

الزامات کا پنڈورا بکس کسی اسٹیج ڈرامے کی طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ہر اداکار اپنا کردار ادا کرکے اور ماضی کے دریچوں سے ایک جھلک دکھا کر غائب ہورہا ہے۔وقتی طور پر یہ بیس سال پرانی کہانیاں نئی ٹائیٹل کے ساتھ اور سنسنی خیز شہ سرخیوں کے ساتھ میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس مہم کا ہدف سابق کپتان وسیم اکرم ہوسکتے ہیں۔وسیم اکرم اس حساس معاملے پر بات نہیں کررہے۔لیکن ایک انٹر ویو میں انہوں نے اشاروں سے بہت کچھ کہہ ڈالا ہے وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ اپنے بارے میں منفی چیزیں سن کر میں بھی دلبرداشتہ ہوجاتا ہوں۔میں 17سال پہلے 2003میں ریٹائر ہوچکا ہوں لیکن آج بھی میرے نام پر دکان چمکائی جارہی ہے۔

میں بدلہ لینے کا عادی نہیں ہوں اس سے آپ کی صحت متاثر ہوتی ہے۔مجھے مسائل ہوتے ہیں تو دوستوں سے مشورہ لے کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔اگر میں سچی کتاب لکھوں تو کئی لوگوں کو اپ سیٹ کرسکتا ہوں۔زندگی میں کچھ معاہدے تحریری نہیں ہوتے۔میرا مشن اعتماد اور وفاداری ہے میں وہ شخص نہیں ہوں جو چھوٹے سے فعل کے لئےجھوٹ بول کر دوسروں کی زندگی خراب کردوں۔زندگی میں مشکل ترین حالات سے گذر چکا ہوں۔

1999میں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک قیوم میچ فکسنگ کی تحقیقات کررہے تھے تو لگ رہا تھا کہ وسیم اکرم سزا سے بچ نہیں سکیں گے لیکن عطاء الرحمن نے بیان تبدیل کرکے کیس کو خراب کردیا۔چند دن پہلے اچانک عطاء الرحمن بھی منظر عام پر آئے انہوں نے بھی وسیم اکرم کو نشانہ بنایا۔عطاءالرحمن کا کہنا ہے کہ میں نے سابق کپتان وسیم اکرم کے کہنے پر جسٹس قیوم کمیشن میں اپنا بیان بدلہ تھا۔

وسیم اکرم سے پوچھیں کہ اس نے یہ بات کی تھی۔وسیم اکرم جب تک حقائق نہیں بتائے گا میں خاموش نہیں رہوں گا۔عطا ء الرحمن کا کہنا ہے کہ میرا کیئر یئر وسیم اکرم کی وجہ سے تباہ ہوا ہے۔مجھ سے حلف نامہ لکھوانے والے عامر سہیل اور راشد لطیف تھےپھر میرا حلف نامہ میڈیا کو دے دیا۔حا؛لانکہ مجھے کہا گیا کہ دونوں اس پر دستخط کریں گےدونوں کہتے ہیں کہ ہم بڑے محب وطن ہیں۔

راشد لطیف بتائیں کہ وسیم اکرم میچ فکسنگ میں ملوث ہیں مجھے بتایا جائے کہ راشد لطیف کی کپتانی میں وسیم اکرم نے جنوبی افریقا میں کس طرح ٹیسٹ میچ کھیلا۔انہوں نے کہا کہ راشد لطیف کو وسیم اکرم اس وقت ٹھیک لگا۔راشد نے پاکستان سپر لیگ کو جوا لیگ قرار دے دیا پھر ایک فرنچائز کے ساتھ جوا لیگ کو جوائن کر لیا۔راشد لطیف پیسوں کے لئے کام کرتے ہیں انہیں ملک سے کوئی محبت نہیں ہے۔یہ سیاست کرتے ہیں اور بلیک میلنگ کرتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر حکومت پاکستان نے تیرہ اگست 1998 کو جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل ایک رکنی کمیشن قائم کیا تو راشد لطیف نے اس کمیشن کے سامنے کچھ آڈیو ٹیپس پیش کیے تھے جن میں ان کے اپنے چند ساتھی کرکٹرز کی گفتگو ریکارڈ تھی جو مبینہ طور پر میچ فکسنگ سے متعلق تھی۔جسٹس ملک محمد قیوم کا کہنا تھا کہ عدالت میں آڈیو شواہد پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی فرانزک تصدیق نہ ہو تاہم چونکہ میچ فکسنگ کی انکوائری تھی لہذا راشد لطیف کے فراہم کردہ وہ آڈیو ٹیپس کمیشن نے سنے تھے اور ان سے کمیشن کی کارروائی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی تھی۔

یاد رہے کہ جسٹس ملک محمد قیوم کمیشن نے میچ فکسنگ کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد سابق کپتان سلیم ملک اور فاسٹ بولر عطا الرحمن پر تاحیات پابندی کی سفارش کی تھی جبکہ سلیم ملک، وسیم اکرم، مشتاق احمد، عطا الرحمن، وقاریونس، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور پر جرمانے عائد کیے گئے تھے۔عطا ء الرحمن نے کہا کہ سابق کرکٹرز کے کرداروں کو بے نقاب کرنا چاہتا ہوں

وسیم اکرم نے کہا کہ اپنے بارے میں جب منفی باتیں سنتا ہوں تو افسردہ ہو جاتا ہوں ۔ میں 17 برس پہلے 2003 میں کرکٹ سے ریٹائر ہو گیا تھا ۔ آج بھی میرا نام لیتے ہیں اور میرے نام پر دکان چمکاتے ہیں ۔ مجھے بھی منفی باتیں آتی ہیں لیکن میں انہیں نظر انداز کرتا ہوں ۔ میں منفی باتوں کو اپنے دماغ کےپیچھے ڈال دیتا ہوں ۔ منفی لوگوں کے لئے میری زندگی میں کبھی ٹائم تھا نہ کبھی ٹائم ہو گا ۔ میرے کچھ دوست ہیں جو کہ بہت اچھے ہیں ۔

ان کے ساتھ وقت گزارتا ہوں ۔میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایسے دوست ملے ہیں ۔ میں صبح ڈیڑھ گھنٹہ اپنےلئے نکالتا ہوں ۔۔اس دوران ایکسرسائز کرتا اور سوچتا ہوں ۔ سلیم ملک میرا پہلا روم میٹ تھا ، 1985 میں وہ بہت بڑا سٹار تھا ۔ ڈبیو پر سو کیا ہوا تھا ۔ آف دی فیلڈ سلیم ملک سے مجھے اتنی مدد نہیں ملی ۔ میرا ہمیشہ یہ مقصد رہا تھا کہ میں نے کسی نہ کسی طرح سیکھنا ہے ۔

عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستان کرکٹ میں ہمیشہ میچ فکسنگ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہی سزا دی گئی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں کیریئر کے عروج پر ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ میرا کیریئر جلد ختم ہو گیا کیونکہ میں نے فکسنگ کے خلاف آواز اٹھائی تھی، مجھے دھمکیاں دی گئیں کہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے، اگر آپ فکسنگ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو، آپ اپنے کیریئر میں ایک حد تک ہی جا سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں آج تک پاکستان کا ہیڈ کوچ نہیں بن سکا۔

عاقب جاوید نے کہا کہ مافیا اور میچ فکسنگ کے ماسٹر مائنڈ کو سزا دیے بغیر کرکٹرز کو سزا دینے کے زیادہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ مافیا بہتر گہرائی میں کام کرتا ہے اور ایک مرتبہ آپ اس دلدل میں داخل ہو جائیں تو آپ نہیں نکل سکتے، کئی کھلاڑیوں کو سزائیں ہوئیں لیکن اس مافیا کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا نہ ان کا پتہ چلا، دونوں کو سزائیں دینی چاہئیں اور اس لعنت کا خاتمہ اس وقت ہوسکتا ہے جب سخت ترین سزا دیتے ہوئے تاحیات پابندی عائد کی جائے۔میں نے عدالت کو بتایا تھا کہ فکسنگ ایک نہیں بلکہ پانچ سے چھ کھلاڑی مل کر کرتے ہیں۔

عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ میں نے جسٹس قیوم کو بتایا کہ میری گواہی ان سب باتوں پر مبنی ہے جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔انہوں نے سلیم ملک کو کرکٹ میں واپسی کا ایک موقع دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سلیم ملک کو ایک اور موقع دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ میں نوکری بھی دی جانی چاہیے۔ یہ 20-21سال پرانے کیسز ہیں اور ان میں سے نکلنا کچھ بھی نہیں ہے لیکن ہمیں ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے کہیں نہ کہیں اس عفریت کو روکنا ہو گا۔

الزامات کی بوچھاڑ میں پاکستانی کرکٹرز جن کو نوجوان نسل اپنے ہیروز اور رول ماڈل کہتے ہیں۔وہ سر سے پاوں تک اس کرپشن کے گند میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ساتھی کھلاڑیوں کی الزام تراشی سے پرانے زخم تازہ ہورہے ہیں۔سابق کپتان اور مشہور مبصر رمیز راجا کہتے ہیں کہ ایسے کرپٹ کرکٹرز کی ہرگز حمایت نہ کریں کیونکہ جب بھی پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ کرپٹ کھلاڑی اپنے شائقین کے ذریعے دباؤ ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور ٹیم میں اپنی واپسی کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔

شائقین کو اچھی طرح اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایسے کرکٹرز کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ بہت زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے۔روز ایک نیا بیان آنے سے پاکستان کرکٹ کی ساکھ مجروح ہورہی ہے اس لئے حکومت پاکستان جس قدر جلدی میں قانون سازی کرلےہم اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکتے ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ جرم ختم نہ لیکن اس کی شرح میں ضرور کمی آسکتی ہے۔